کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 71
کہ اسے کائنات کی ہر چیز میں اﷲنظر آنے لگتا ہے یا وہ ہر چیز کواﷲکی ذات کا جزء سمجھنے لگتا ہے‘تصوف کی اصطلاح میں اس عقیدہ کو وحدت الوجودکہا جاتا ہے ‘عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی کرنے کے بعد انسان کی ہستی اﷲکی ہستی میں مدغم ہوجاتی ہے اور وہ دونوں (خدا اور انسان)ایک ہوجاتے ہیں ‘اس عقیدے کو وحدت الشہود یا ’’فنا فی اﷲ‘‘کہا جاتا ہے ‘عبادت اور ریاضت میں مزید ترقی سے انسان کا آئینہ دل اس قدرلطیف اور صاف ہوجاتا ہے کہاﷲکی ذا ت خود اس انسان میں داخل ہوجاتی ہے جسے حلول کہا جاتا ہے ۔ غور کیاجائے تو ان تینوں اصطلاحات کے الفاظ میں کچھ نہ کچھ فرق ضرور ہے لیکن نتیجہ کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق نہیں اور وہ یہ کہ ’’انساناﷲکی ذات کا جزء اور حصہ ہے ‘‘یہ عقیدہ ہر زمانے میں کسی نہ کسی شکل میں موجود رہا ہندو مت کے عقیدہ ’’اوتار‘‘بدھ مت کے عقیدہ ’’نرواں‘‘اور جین مت کے ہاں بت پرستی کی بنیاد یہی فلسفہ وحدت الوجوداور حلول ہے[1]یہودیوں نے فلسفہ حلول کے تحت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کواﷲکا بیٹا (جزء)قرار دیا۔مسلمانوں کے دوبڑے گروہوں ‘اہل تشیع اور اہل تصوف ‘کے عقائد کی بنیاد بھی یہی فلسفہ وحدت الوجود اور حلول ہے ۔صوفیاء کے سرخیل جناب حسین بن منصور حلاج (ایرانی)نے سب سے پہلے کھلم کھلا یہ دعویٰ کیا کہ خدا اس کے اند رحلول کرگیا ہے اور اَنَا لحقَ (میں اﷲ ہوں )کا نعرہ لگایا منصور بن حلاج کے دعویٰ خدائی کی تائید اور توصیف کرنے والوں میں علی ہجویری اور شیخ عبدالقادر جیلانی اور سلطان الاولیاء خواجہ
[1] مسلمانوں میں اس کی ابتداء عبداﷲبن سبا نے کی جو یمن کا یہودی تھا ‘عہد نبوی میں یہودیوں کی ذلت ورسوائی کا انتقام لینے کے لئے منافقانہ طور پر عہد فاروقی (یا عہد عثمانی )میں ایمان لایا اپنے مذموم عزائم بروئے کار لانے کے لئے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو مافوق البشر ہستی باور کرانا شروع کیا بالآخر اپنے معتقدین کاایک ایسا حلقہ پیدا کرنے میں کامیاب ہوگیا جو حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خلافت کا اصل حقدار اورباقی خلفاء کو غاصب سمجھنے لگا اس گمراہ کن پروپیگنڈہ کے نتیجہ میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومانہ شہادت واقع ہوئی جمل اور صفین کی خون ریز جنگیں ہوئیں اس سارے عرصہ میں عبداﷲبن سبا اور اس کے پیروکار حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ساتھ دیتے رہے اور فتنے پیدا کرنے کے مواقع کی تلاش کرتے رہے ‘حضرت علی رضی اللہ عنہ سے محبت اور عقیدت کے نام پر بالآخر اس نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اﷲتعالیٰ کا روپ یا اوتار کہنا شروع کردیا اور مشکل کشا ‘حاجت روا ‘عالم الغیب ‘اور حاضر ناظر جیسی خدائی صفات ان سے منسوب کرنا شروع کردیں ‘اس مقصد کے حصو ل کے لئے بعض روایات بھی وضع کی گئیں مثلاً جنگ احد میں جب رسول اکرم زخمی ہوگئے تو جبریل نے آکر کہا (اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم )ناد علیا والی دعا پڑھو یعنی علی کو پکارو ‘جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعا پڑھی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ فورآ آپ کی مدد کو آئے اور کفار کو قتل کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور تمام مسلمانوں کو قتل ہونے سے بچالیا ۔(اسلامی تصوف میں غیر اسلامی تصوف کی آمیزش از پروفیسر یوسف سلیم چشتی صفحہ ۳۴)