کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 64
ہاتھ باندھ کر باادب کھڑے ہونا ‘ان سے مرادیں مانگنا ‘ان کے نام کی چوٹی رکھنا ‘ان کے نام کے دھاگے باندھنا ‘ان کے نام کی دھائی دینا ‘تکلیف اورمصیبت میں انہیں پکارنا ‘مزاروں کا طواف کرنا ‘طواف کے بعد قربانی کرنااور سر کے بال مونڈوانا ‘مزار کی دیواروں کو بوسہ دینا وہاں سے خاک شفا حاصل کرنا ‘ننگے قدم مزار تک پیدل چل کرجانا اور الٹے پاؤں واپس پلٹنا یہ سارے افعال تو وہ ہیں جو ہر چھوٹے بڑے مزار پر روز مرہ کا معمول ہیں اور جو مشہور اولیاء کرام کے مزار ہیں ان میں سے ہر مزار کا کوئی نہ کوئی الگ امتیازی وصف ہے مثلاً: بعض خانقاہوں پر بہشتی دروازے تعمیر کئے گئے ہیں جہاں گدی نشین اور سجادہ نشین نذرانے وصول کرتے اورجنت کی ٹکٹیں تقسیم فرماتے ہیں کتنے ہی امراء ‘وزرائ‘اراکین اسمبلی ‘سول اور فوج کے اعلیٰ عہدیدار سر کے بل وہاں پہنچتے ہیں اور دولت دنیا کے عوض جنت خریدتے ہیں ‘بعض ایسی خانقاہیں بھی ہیں جہاں منا سک حج ادا کئے جاتے ہیں ‘مزار کا طواف کرنے کے بعد قربانی دی جاتی ہے ‘بال کٹوائے جاتے ہیں ‘اور مصنوعی آب زم زم نوش کیا جاتا ہے ‘بعض ایسی خانقاہیں بھی ہیں جہاں نومولود معصوم بچوں کے چڑھاوے چڑھائے جاتے ہیں ‘بعض ایسی خانقاہیں بھی ہیں جہاں کنواری دوشیزائیں خدمت کے لئے وقف کی جاتی ہیں ۔بعض ایسی خانقاہیں ہیں جہاں اولاد سے محروم خواتین ’’نوراتا‘‘بسر کرنے جاتی ہیں[1]انہی خانقاہوں میں سے بیشتر بھنگ ‘چرس ‘افیون ‘گانجا اور ہیروئن جیسی منشیات کے کاروبار ی مراکز بنی ہوئی ہیں ‘بعض خانقاہوں میں فحاشی بدکاری او رہوس پرستی کے اڈے بھی بنے ہوئے ہیں[2] بعض خانقاہیں مجرموں اور قاتلوں کی محفوظ پناہ گاہیں تصور کی جاتی ہیں
[1] ملتان کے علاقہ میں ایسی بہت سی خانقاہیں جہاں بے اولاد خواتین نوراتوں کے لئے جاکر قیام کرتی ہیں اور صاحب مزار کے حضور نذر ونیاز پیش کرتی ہیں ‘مجاوروں کی خدمت اور سیوا کرتی ہیں اور یہ عقیدہ رکھتی ہیں کہ اس طرح صاحب مزار انہیں اولاد سے نواز دے گا ‘عرف عام میں اسے نوراتا کہا جاتا ہے۔
[2] ویسے تو اخبارات میں آئے دن مزاروں اور خانقاہوں پر پیش آنے والے المناک واقعات لوگوں کی نظروں سے گزرتے ہی رہتے ہیں ہم یہاں مثال کے طور پر صرف ایک خبر کا حوالہ دینا چاہتے ہیں جو روزنامہ ’’خبریں ‘‘مورخہ ۱۵ اکتوبر ۱۹۹۲ ء میں شائع ہوئی ہے وہ یہ کہ ضلع بہاولپور میں خواجہ حکیم الدین میرائی کے سالانہ عرس پر آنے والی بہاولپوری یونیورسٹی کی دوطالبات کو سجادہ نشین کے بیٹے نے اغوا کرلیا جبکہ ملزم کا باپ سجادہ نشین منشیات فروخت کرتے ہوئے پکڑا گیا۔