کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 43
ترجمہ:’’مشرکوں نےاﷲتعالیٰ کے سوا دوسرے الٰہ اس بنارکھے ہیں تاکہ وہ ان کی مدد کریں۔‘‘(سورہ یس آیت۷۴) یہی وہ عقیدہ ہے جس کے تحت مشرکین عرب بتوں کی شکل میں اپنے بزرگوں اور اولیاء کرام کو پکارتے اور ان سے مرادیں طلب کرتے تھے ‘اسی عقیدے کے تحت ہندو‘بدھ‘اور جینی ‘مورتیوں مجسموں اور بتوں کی شکل میں اپنے اپنے بزرگوں اور ولیوں سے حاجتیں اور مرادیں طلب کرتے ہیں ‘اسی عقیدے کے تحت بعض مسلمان فوت شد اولیائے کرام اور بزرگوں کو پکارتے اور ان سے حاجتیں اورمرادیں طلب کرتے ہیں [1]سید علی ہجویری اپنی مشہور کتاب ’’کشف المحجوب‘‘میں فرماتے ہیں اﷲتعالیٰ اولیاء کے ملک کے مدبر ہیں اور عالم (دنیا)کے نگراں ہیں اﷲتعالیٰ نے خاص طور پر ان کو عالم کا والی (حاکم)گردانا ہے اور عالم(دنیا)کا حل وعقد (انتظام)ان کے ساتھ وابستہ کردیا ہے اور احکام عالم کو ان ہی کی ہمت سے جوڑ دیا ہے[2]حضرت نظام الدین اولیاء اپنی معروف کتاب ’’فوائد الفوائد‘‘میں فرماتے ہیں ’’شیخ نظام الدین ابوالموید بارہا فرمایا کرتے تھے ’’میری وفات کے بعد جس کو کوئی مہم درپیش ہو تو اس سے کہو تین دن میری زیارت کو آئے اگر تین دن گزرجانے کے بعد بھی وہ کام پورا نہ ہو تو چار دن آئے اور اب بھی کام نہ نکلے تو میری قبر کی اینٹ سے اینٹ بجادے [3] جناب احمدرضا خان بریلوی فرماتے ہیں ’’اولیاء کرام مردے کو زندہ کر
[1] یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ عالم اسباب کے تحت کسی زندہ انسان سے مدد طلب کرنا شرک نہیں البتہ عالم اسباب سے بالاتر اﷲتعالیٰ کے سوا سی دوسرے کو پکارنا شرک ہے مثلاً سمندر میں ڈوبتے ہوئے جہاز پر بیٹھے ہوئے لوگوں کا کسی قریب ترین بندرگاہ پر موجود لوگوں کو وائرلیس کے ذریعے صورت حال سے مطلع کرکے مدد طلب کرنا شرک نہیں کیونکہ ڈوبنے والوں کا وائر لیس کے ذریعے زندہ انسانوں کو اطلاع دینا ‘بندرگاہ پر موجود لوگوں کا ہیلی کاپٹروغیرہ کے ذریعہ جائے حادثہ پر پہنچنا اور بچانے کی کوشش کرنا یہ سارے کام سلسلہ اسباب کے تحت ہیں ‘البتہ اگر ڈوبنے والے ’’بگرداب بلا افتاد کشتی مدد کن یا معین الدین چشتی ‘‘(یعنی میری کشتی طوفانوں میں پھنسی ہے اے معین الدین چشتی تو میری مدد کر )کی دہائی دینے لگیں تو یہ شرک ہوگا کیونکہ ایسی فریاد کرنے والے کا عقیدہ ہوگا کہ اولاً خواجہ معین الدین چشتی مرنے کے باوجود سینکڑوں یا ہزاروں میل دور سے فریاد سننے کی طاقت رکھتے ہیں یعنی وہ اﷲتعالیٰ کی طرح سمیع ہیں۔ثانیاً ‘فریاد اور پکار سننے کے بعدخواجہ معین الدین چشتی فریاد کرنے والے کی مدد کرنے اور اس کی مشکل حل کرنے کی پوری قدرت رکھتے ہیں‘یعنی وہ اﷲتعالیٰ کی طرح قادر بھی ہیں ‘ان دونوں صورتوں میں جو فرق ہے وہ باسانی سمجھا جاسکتا ہے۔
[2] تصوف کی تین اہم کتابیں از سید احمد عروج قادری صفحہ ۳۲ مطبوعہ ہندوستان پبلی کیشنز دہلی
[3] بحوالہ سابق صفحہ ۵۹