کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 39
اس واقعہ سے یہ معلوم ہوا کہ جہاں بعض مشرک پتھروں کے خیالی بت اور مجسمے بناکر انہیں اپنا معبو د بنالیتے تھے وہاں بعض مشرک اپنی قوم کے بزرگوں اور ولیوں کے مجسمے اوربت بناکر انہیں بھی اپنا معبود بنالیتے تھے آج بھی بت پرست اقوام جہاں فرضی بت تراش کر ان کی پوجا اور پرستش کرتی ہے وہاں اپنی قوم کی عظیم اورمصلح شخصیتوں کے بت اور مجسمے تراش کر ان کی پوجا اور پرستش بھی کرتی ہیں ہندو لوگ’’رام‘‘اس کی ماں ’’کوشلیا‘‘اس کی بیوی ’’سیتا‘‘اس کے بھائی ’’لکشمن‘‘کے بت تراشتے ہیں۔’’شیوجی‘‘کے ساتھ اس کی بیوی’’پاروتی‘‘اس کے بیٹے ’’لارڈ گنیش‘‘کے بت اور مجسمے بناتے ہیں ۔’’کرشنا‘‘کے ساتھ اس کی ماں ’’یشودھا‘‘اور اس کی بیوی ’’رادھا‘‘کے بت اور مورتیاں بنائی جاتی ہیں [1]اسی طرح بدھ مت کے پیروکار ’’گوتم بدھ‘‘کامجسمہ اور مورت بناتے ہیں جین مت کے پیروکار سوامی مہاویر کا بت تراشتے اور اس کی پوجا پاٹ کرتے ہیں ان کے نام کی نذر ونیاز دیتے ہیں ان سے اپنی حاجتیں اور مرادیں طلب کرتے ہیں یہ سارے نام تاریخ کے فرضی نہیں بلکہ حقیقی کردار ہیں جن کے بت تراشے جاتے ہیں ایسے تمام بزرگ اور ان کے بت بھی قرآن مجید کی اصطلاح ’’من دوناﷲ‘‘میں شامل ہیں۔
بعض مشرک لوگ اپنے ولیوں اور بزرگوں کے بت یا مجسمے تراشنے کی بجائے ان کی قبروں اور مزاروں کے ساتھ بتوں جیسا معاملہ کرتے تھے‘مشرکین مکہ قوم نوح کے بتوں ‘ود‘سواع‘یغوث‘یعوق اور نسر کے علاوہ دوسرے جن بتوں کی پوجا اور پرستش کرتے تھے ان میں لات ‘منات ‘عزی‘اور ہبل زیادہ مشہور تھے
ان میں سے لات کے بارے میں امام ابن کثیر رحمہاﷲنے قرآن مجید کی آیت أَفَرَأَیْتُمُ اللاَّتَ وَالعُزَّی ۔
[1] یہاں اس بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا کہ ہندوؤں میں دومشہور فرقے ہیں سناتن دھرم اور آریہ سماج ‘سناتن دھرم کی مذہبی کتب چاروید‘چھ شاستر ‘اور اٹھارہ اسم رتی شامل ہیں ان کتب میں ۳۳ کروڑ دیوتاؤں اور اوتاروںکا ذکر ملتا ہے جب کہ آریہ سماج اپنی بت پرستی کے باوجود موحد ہونے کا دعویٰ رکھتا ہے اور چار ویدوں کے علاوہ باقی کتب کو اس لئے تسلیم نہیں کرتا کہ ان میں شرک کی تعلیم دی گئی ہے۔
آریہ سماج فرقہ کے ایک مبلغ راجہ رام موہن رائے (۱۷۷۴ء تا ۱۸۳۳ء نے ’’تحفۃ الموحدین ‘‘ایک کتاب بھی تصنیف ی ہے جس میں بت پرستی کی مذمت اور توحید کی تعریف کی گئی ہے۔(ہندودھرم کی جدید شخصیتیں از محمد فاروق خان ایم اے)