کتاب: کتاب التوحید عقیدہ توحید اور دین خانقاہی ( صوفی ازم ) - صفحہ 19
مصور‘عزیز‘متکبر‘خبیر‘علیم‘حکیم‘رحیم‘کریم‘عظیم‘قیوم‘‘غفور‘رحمن‘کبیر‘قوی‘مجیب‘رقیب‘حمید‘صمد‘قادر‘اول‘آخر‘تواب‘رؤف‘غنی‘ذوالجلال والاکرام وغیرہ پر قیاس کرلیجئے اورپھر سورۃ کہف اور سورہ لقمان کی مذکورہ بالا آیات پر غور کیجئے کہاﷲکریم نے کس قدر حق بات ارشاد فرمائی ہےاﷲتعالیٰ کی ان تمام صفات یا ان میں سے کسی ایک صفت میں کسی دوسرے کو شریک سمجھنا شرک فی الصفات کہلاتا ہے ۔
عقیدہ توحید بنی نوع انسان کے لئے سب سے بڑی رحمت ہے :
قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال ایک ایسے پاکیزہ درخت سے دی ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری ہوں‘شاخیں آسمان کی بلندیوں تک پہنچی ہوں اور جو مسلسل بہترین پھل پھول دئیے چلا جارہا ہوارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
﴿أَلَمْ تَرَ کَیْفَ ضَـرَبَااللّٰه مَثَلاً کَلِمۃً طَیِّبَۃً کَشَجَرَۃٍ أَصْلُھَا ثَابِتٌ وَفَرْعُھَا فِی السَّمَآء ، تُوْتِیْ أُکُلَھَا کُلَّ حِیْنٍ بِاِذْنِ رَبِّھَا﴾
ترجمہ:’’کیا تم دیکھتے نہیں ہوکہاﷲتعالیٰ نے کلمہ طیبہ کی مثال کس چیز سے دی ہے ؟اس کی مثال ایسی ہے جیسے ایک ایسی ذات کا درخت جس کی جڑ زمین میں گہری جمی ہوئی ہے اور شاخیں آسمان تک پہنچی ہوئی ہیں ہر آن وہ اپنے رب کے حکم سے اپنے پھل دے رہا ہے ‘‘، (سورہ ابراہیم آیت :۲۴-۲۵)
کلمہ طیبہ کی اس مثال سے مندرجہ ذیل تین باتیں واضح ہوتی ہیں ۔
(۱) اس درخت کی بنیاد بڑی مضبوط ہے زمانے کے شدید طوفان ‘آندھیاں اور زلزلے بھی اس درخت کو اکھاڑ نہیں سکتے ۔
(۲)کلمہ طیبہ کا درخت نشوونما کے اعتبار سے اپنا کو ئی ثانی نہیں رکھتا کلمہ طیبہ ایک ایسی عالمگیر سچائی ہے جسے کائنات کے ذرے ذرے کی تائید حاصل ہوتی ہے اس کے راستے میں کوئی رکاوٹ پیش نہیں آتی لہٰذا وہ اپنی طبعی نشوونما میں آسمان تک پہہنچ جاتا ہے یہی بات رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ایک حدیث میں اس طرح واضح فرمائی کہ ’’جب انسان سچے دل سے لَااِلٰــہَ اِلاَّااللّٰه کا اقرار کرتا ہے تو اس کے لئے آسمان کے