کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 92
۲۴۸۔ سفیان ثوری اور ابن المبارک فرمایا کرتے تھے: ’’لوگ ہمارے ہاں مواریث اور احکام میں مومن ہیں ۔ لیکن اللہ کے ہاں ان کی کیفیت کے بارے میں ہم نہیں جانتے، اور یہ بھی معلوم نہیں کہ وہ کس دین پر مریں گے۔‘‘ 1 1۔ الرسالۃ الداصخۃ: ۲؍ ۸۱۴۔ الإبانۃ الکبری: ۱۱۹۷۔ للالکائی: ۱۷۹۷۔ الخلال: ۹۶۹۔ ٭ اس لیے کہ استثناء مستقبل کے بارے میں ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جب انسان کہتا ہے ((آنا مؤمن إن شاء اللّٰہ۔))’’اگر اللہ نے چاہا مومن ہوں ۔‘‘ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر اللہ نے میرا ایمان قبول کر لیا، اور مجھے اسی پر موت دے دی۔ اس کی منزلت ایسے ہی ہے جیسے کوئی انسان نماز پڑھتا ہے اور کہتا ہے: میں نے نماز پڑھ دی اور اس کی قبولیت اللہ تعالیٰ پر ہے، اور یہی حال حج روزہ اور دیگر اعمال کا ہے۔ ان میں استثناء کا وقوع اس کے اختتام پر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ پر ان کی قبولیت ہوتی ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ اپنے قول یا عمل میں شک و شبہ کر رہا ہے۔ ایک آدمی کو آپ نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ہیں ، اور اس سے پوچھتے ہیں : کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ تو وہ کہتا ہے ہاں 1۔ اگر اللہ تعالیٰ نے قبول فرما لی، تو۔ ۲۴۹۔ پھر اس کے بعد آپ کو یہ جاننا چاہیے کہ اسلام کا معنی ایمان کا معنی سے جدا ہے۔ اسلام ایک نام ہے، اس کا معنی ہے ملت۔ ایمان بھی نام ہے اس کا معنی ہے تصدیق فرمان الٰہی ہے: ﴿قَالُوْا یٰٓاَبَانَآ اِنَّا ذَہَبْنَا نَسْتَبِقُ وَ تَرَکْنَا یُوْسُفَ عِنْدَ مَتَاعِنَا فَاَکَلَہُ الذِّئْبُ وَ مَآ اَنْتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَ لَوْکُنَّا صٰدِقِیْنَo﴾ (یوسف: ۱۷) ’’کہا اے ہمارے باپ1۔ بے شک ہم دوڑ میں ایک دوسرے سے آگے نکلتے چلے گئے اور ہم نے یوسف کو اپنے سامان کے پاس چھوڑ دیا تو اسے کوئی بھیڑیا کھا گیا اور تو ہر گز ہمارا اعتبار کرنے والا نہیں ، خواہ ہم سچے ہوں ۔‘‘