کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 78
غیبت کا کیا حکم ہے؟ فرمایا: تو پھر کیا وہ کوئی سچے لوگ ہیں ۔‘‘
۲۱۴۔ حضرت عطاء فرماتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ بدعتی کو توبہ کی توفیق نہیں دیتے۔‘‘
۲۱۵۔ ابو عبید کہتے ہیں : میں لوگوں کے ساتھ اٹھتا بیٹھتا رہا اور اہل کلام سے بھی گفتگو کی مگر کوئی قوم روافض سے بڑھ کر گندی، پلید، بے حجت اور احمق نہیں دیکھی۔‘‘ 1
1۔ السنۃ لعبداللّٰہ: ۴۹۱۔ الخلال: ۷۹۵۔
۲۱۶۔ رَقَبَہُ بن مُصْقَلَہ کے ہاں اہل بدعت کا ذکر ہوا تو فرمایا: ’’جہاں تک روافض کا تعلق ہے، تو اُن کی حجت بہتان تراشی ہے، اور مرحبہ: بادشاہوں کے دین پر چلتے ہیں ۔ جبکہ زیدیہ کے باریے میں میرا خیال ہے کہ ان کی بنیاد رکھنے والی ایک عورت ہے، اور معتزلہ، اللہ کی قسم1۔ میں اپنے ساز و سامان کی طرف نکلا تو میرا خیال تھا کہ میں اس وقت لوٹوں گا جب وہ اپنی رائے سے رجوع کر چکے ہوں گے۔‘‘ 1
1۔ اللالکائی: ۲۸۱۸۔ تاریخ دمشق: ۳۳؍ ۳۰۱۔
۲۱۷۔ طلحہ بن مصرف کہتے ہیں : ’’اگر میں وضو سے نہ ہوتا تو تمہیں بتاتا کہ روافض کا عقیدہ کیا ہے؟‘‘ 1
1۔ الإبانۃ: ۲؍ ۹۔ للالکائی: ۲۴۰۱۔ الأوسط لإبن المنذر: ۲؍ ۳۳۴۔
۲۱۸۔ مغیرہ کہتے ہیں : ’’جریر بن عبداللہ، عدی بن حاتم اور حنظلہ الکاتب کوفہ سے نکل کر قرقیساء چلے گئے اور کہنے لگے: ہم ایسے شہر میں نہیں رہ سکتے جہاں حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کو گالی دی جاتی ہو۔‘‘ 1
1۔ التاریخ الکبیر للبخاری: ۳؍ ۳۶۔ المعجم الکبیر للطبرانی: ۲؍ ۲۹۳۔ روایت: ۲۲۱۷۔
ابن عبدالحکم نے الجامع: ۱۴۵ پر امام مالک کا قول نقل کیا ہے، فرماتے ہیں : اس سر زمین پر رہنا مناسب نہیں جہاں حق کو ترک کیا جا رہا ہو اور سلف صالحین پر سب شتم ہوتا ہو، اور پھر حضرت ابو درداء کا یہ قول دلیل پیش کیا، جب آپ کے سامنے سنت کے مقابلہ میں رائے پیش کی تو فرمایا: میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی خبر دیتا ہوں ، اور تم مجھے اپنی رائے بتاتے ہو، میں اس سر زمین پر ہی نہیں رہوں گا