کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 77
﴿وَالَّذِیْنَ جَاؤا مِنْ بَعْدِہِمْ یَقُوْلُوْنَ﴾ (الحشر: ۱۰)1
1۔ الخلال: ۷۹۲۔
’’اور (ان کے لیے)جو ان کے بعد آئے، وہ کہتے ہیں ۔‘‘
۲۱۰۔ حماد بن زید کہتے ہیں : ’’میں ایوب، انس اور ابن عون کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، وہاں سے عمرو بن عبید کا گزر ہوا، اس نے انہیں سلام کیا، اور کھڑا ہو گیا، انہوں نے اسے کوئی جواب نہیں دیا۔ پھر وہ چلا گیا۔ انہوں نے اس کے متعلق بات تک نہ کی۔‘‘ 1
1۔ الإبانۃ: ۱۹۸۴۔ السنۃ لعبداللّٰہ: ۹۴۲۔
۲۱۱۔ فضیل کہتے ہیں : ’’اللہ تعالیٰ کا ہاتھ جماعت پر ہوتا ہے اور اللہ تعالیٰ بدعتی کی طرف نہیں دیکھتے۔‘‘ 1
1۔ الخلال: ۷۸۹۔ اللالکائی: ۲۳۹۰۔
۲۱۲۔ زائدہ کہتے ہیں : ’’میں نے منصور سے پوچھا: اے ابو عتاب1۔ آج کا دن جس میں ہم میں سے کوئی ایک روزہ رکھتا ہے، کیا وہ اُن لوگوں کی عیب جوئی کر سکتا ہے جو حضرت ابو بکر و عمر کی شان میں گستاخی کرتے ہیں ؟ فرمایا: ہاں ۔‘‘ 1
1۔ الخلال: ۷۸۹۔ للالکائی: ۲۳۹۰۔
منصور، سے مراد منصور ابن معتمر ہے، اور زائدہ ابن قدامہ: ۱۶۰ھ میں فوت ہوئے ہیں ۔
(الحلیۃ میں ۳؍ ۳۲ پر ہے: سعید بن عامر کہتے ہیں : ’’سلیمان التیمی بیمار ہوئے، تو وہ بیماری کے عالم میں بہت سخت رو رہے تھے، آپ سے پوچھا گیا، آپ کیوں رو رہے ہیں ؟ کیا موت سے ڈرتے ہیں ؟ فرمانے لگے: نہیں ، بلکہ بات یہ ہے کہ ایک بار میرا گزر ایک قدری پر ہوا، میں نے اسے سلام کیا۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں اللہ تعالیٰ اس پر میرا محاسبہ نہ کریں ۔‘‘
۲۱۳۔ حضرت حسن فرماتے ہیں : ’’بدعتی کی کوئی غیبت نہیں ہوتی۔‘‘ 1
1۔ ذم الکلام: ۶۹۹۔ اللالکائی: ۲۸۰۔ ذم الکلام: ۷۰۰۔
الخلال نے السنۃ ۷۸۸ میں روایت کیا ہے: ’’محارب بن دثار سے پوچھا گیا، رافضہ کی