کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 64
اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًاo﴾ (الطلاق: ۲) ’’پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہو جاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کے لیے قائم کرو۔ یہ وہ (حکم)ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا وہ اس کے لیے نکلنے کا کوئی راستہ بنا دے گا۔‘‘ اور فرمان الٰہی ہے: ﴿وَ لَوْ عَلِمَ اللّٰہُ فِیْہِمْ خَیْرًا لَّاَسْمَعَہُمْ وَ لَوْ اَسْمَعَہُمْ لَتَوَلَّوْا وَّ ہُمْ مُّعْرِضُوْنَo﴾ (الانفال: ۲۳) ’’اور اگر اللہ ان میں کوئی بھلائی جانتا تو انھیں ضرور سنوا دیتا اور اگر وہ انھیں سنوا دیتا تو بھی وہ منہ پھیر جاتے، اس حال میں کہ وہ بے رخی کرنے والے ہوتے۔‘‘ للالکائی: ۲۸۲ پر فضیل بن عیاض کا قول ہے، فرماتے ہیں : جب اللہ تعالیٰ کسی انسان سے محبت کرتے ہیں تو اسے نیک اعمال کی توفیق دیتے ہیں ۔ ۱۶۰۔ حضرت مالک بن انس کے چچا ابو سہیل فرماتے ہیں : ’’عمر بن عبدالعزیز نے مجھ سے قدریہ کے بارے میں مشورہ کیا۔ میں نے کہا: میری رائے یہ ہے کہ ان سے توبہ کروائی جائے، اگر توبہ کر لیں تو ٹھیک، ورنہ ان کی گردنیں مار دی جائیں ۔ حضرت عمر نے فرمایا: میری بھی یہی رائے ہے۔ امام مالک بن انس کی بھی یہی رائے تھی، اور حسن بصری بھی ان کے ساتھ تھے۔‘‘ 1 الإبانۃ: ۱۸۵۰۔ القدر: ۲۷۳۔ السنۃ للخلال: ۸۷۶۔ ۱۶۱۔ حضرت حسن بن محمد بن علی قدریہ اور خوارج کو مسلمان نہیں سمجھتے تھے۔ (اہل سنت اُن قدریہ کو کافر کہتے ہیں جو اللہ تعالیٰ کے علم کی نفی کرتے ہیں ۔ عبداللہ بن احمد بن حنبل السنۃ: ۸۳۵ پر فرماتے ہیں : میں نے اپنے والد صاحب سے سنا آپ سے علی بن جہم