کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 63
میں یہ آیت پڑھی: ﴿وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ﴾ (البقرۃ: ۲۲۱)’’اور یقیناً ایک مومن غلام کسی بھی مشرک مرد سے بہتر ہے۔‘‘ 1 الإبانۃ الکبری: ۱۸۷۵۔ السنۃ لإبیہ أبی عاصم: ۱۹۸۔ للالکائی: ۱۳۵۲۔ الشریعۃ: ۲؍ ۹۳۴۔ ۱۵۸۔ اور فرمایا: ’’میں نے سنا امام مالک کے پاس بعض بدعتی آئے، اور گفتگو کرنے لگے تو فرمایا: میرا معاملہ تو یہ ہے کہ میں اپنے رب کی طرف سے واضح راستے پر ہوں جب کہ تم شک میں گرفتار ہو۔ لہٰذا تم اپنے جیسے کسی شک والے شخص کے پاس جاؤ اور اس سے جھگڑا کرو۔‘‘ کہتے ہیں کہ امام مالک نے فرمایا: یہ لوگ اپنے آپ پر دین کو ملتبس کر دیتے ہیں ، اور پھر سیدھی راہ دکھانے اور پہچان کروانے والے کو تلاش کرتے ہیں ۔‘‘ 1 الإبانۃ: ۳۱۱۔ أصول السنۃ: ۲۳۱۔ للالکائی: ۲۱۵۔ مختصر الحجۃ میں حضرت سفیان سے منقول ہے، فرمایا: ’’اہل بدعت کے ساتھ جھگڑا مت کرو (یعنی مناظرہ؍ مسائل دین میں گفتگو مت کرو)۔ اس لیے کہ وہ اس چیز کو نا پسند کرتے ہیں جو تمہارے پاس ہے۔ لہٰذا وہ تمہارے دین کو تم پر ملتبس کر دیں گے۔‘‘ ۱۵۹۔ امام مالک فرماتے ہیں : ایک آدمی نے کہا: میں نے ان تمام ادیان میں داخل ہو کر دیکھا، ان میں سے کسی ایک کو بھی صرا مستقیم پر نہیں پایا۔ تو متکلمین اہل مدینہ میں سے ایک آدمی نے اس سے کہا: میں تمہیں بتاتا ہوں ایسا کیوں ہوا؟ فرمایا: اس لیے کہ تم اللہ سے نہیں ڈرتے۔ اگر تم اللہ سے ڈرتے ہوتے تو اللہ تعالیٰ تمہارے لیے کوئی نکلنے کی راہ پیدا کر دیتے۔‘‘ 1 الإبانۃ الکبری: ۳۱۷۔ الجامع لإبن أبی زید، ص: ۱۲۰۔ یہ اس آیت کی طرف اشارہ ہے: ﴿فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ اَوْ فَارِقُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰهِ ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ یَّتَّقِ