کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 39
۶۶۔ ایک آدمی نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا: الحمدللہ کہ اس ذات نے ہماری ’’أہواء‘‘ کو آپ کی ’’أہواء‘‘ پر کر دیا ہے۔ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ’’بے شک اللہ تعالیٰ نے ’’أہواء‘‘ (خواہش پرستی)میں کوئی چیز نہیں رکھی، خواہشات یعنی أہواء کو أہواء (گرنے والی)اس لیے کہتے ہیں کہ یہ اپنے ساتھی کو لے کر جہنم کی آگ میں گرتی ہے۔‘‘ 1 الإبانۃ الکبری: ۲۴۱۔ عبدالرزاق: ۲۰۲۰۱۔ الشریعۃ: ۱۲۶۔ اللالکائی: ۲۲۵۔ ۶۷۔ حضرت حسن، مجاہد اور ابو عالیہ فرماتے ہیں کہ: ’’خواہشات کا نام ’’ہوی‘‘ اس لیے رکھا گیا ہے کہ یہ اپنے ساتھی کو لے کر جہنم کی آگ میں گرتی ہیں ۔‘‘ 1 سنن الدارمی: ۴۰۹۔ اللالکائی: ۲۲۹۔ ۶۸۔ حضرت حسن فرماتے ہیں : ’’کوئی بیماری اس سے بڑھ کر نہیں کہ کسی دل میں خواہشات روح بس جائیں ۔‘‘ 1 زہد لأحمد، ص: ۲۶۴۔ السنۃ للخلال: ۱۵۴۳۔ سورۃ القصص: ۱۵۔ ۶۹۔ حضرت ابو قلابہ فرماتے ہیں : ’’خبردار1۔ جھگڑالو لوگوں (مناظرے کرنے والوں )سے بچ کر رہو۔ میں یہ خطرہ محسوس کرتا ہوں کہ وہ تمہیں اپنی گمراہیوں کا شکار نہ کر لیں ، یا بعض امور جنہیں تم اچھی طرح سے جانتے ہو، تم پر ملتبس کر دیں ۔‘‘ 1 الصحاح: ۵؍ ۲۳۹۔ الإبانۃ: ۳۶۸۔ ۷۰۔ حضرت عطاء طاؤوس، مجاہد اور شعبی خصومات میں فتویٰ دینے کو مکروہ سمجھتے تھے، اور فرامیا کرتے تھے خصومات دین کو مٹا دیتی ہیں ۔‘‘ 1 اور فرمایا کرتے تھے: اللہ تعالیٰ کا خوف رکھنے والا کبھی خصومات میں نہیں پڑتا۔‘‘ 2 الصحاح: ۵؍ ۲۳۹۔ الإبانۃ الکبری: ۶۴۰۔ ۷۱۔ عمران بن حصین نے فرمایا: ’’حیاء ایمان کا حصہ ہے۔‘‘ آپ کے پاس موجود آدمی کہا: ’’حکمت میں لکھا ہوا ہے: بے شک حیاء میں کمزوری ہے، اور اس میں وقار ہے۔‘‘