کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 33
زوائد فضائل الصحابۃ؍ لعبداللّٰہ بن أحمد: ۹۔ الکامل لإبن عدی: ۲؍ ۲۷۹۔ سنن الکبری للبیہقی: ۸؍ ۱۸۵۔ اس کی سند منقطع ہے مگر معنی بالکل صحیح ہے۔ ۴۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی داڑھی پر ہاتھ رکھا اور فرمایا: ’’اے عمر1۔ ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘ حضرت عمر فرماتے ہیں : میں نے کہا: یا رسول اللہ1۔ میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘ معاملہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ابھی ابھی جبریل میرے پاس آئے تھے، اور فرمایا: ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم 1۔ ’’إنا للّٰہ وإنا إلیہ راجعون‘‘ آپ کی امت آپ کے تھوڑے ہی عرصہ بعد فتنہ میں مبتلا ہو جائے گی۔ زیادہ وقت نہیں گزرے گا۔ میں نے کہا: اے جبریل1۔ یہ گمراہی کا فتنہ ہوگا یا کفر؟۔‘‘ کہا: سب فتنے ہوں گے۔ میں نے کہا: وہ کیسے گمراہ یا کفر ہوں گے جب کہ میں اُن کے درمیان اللہ کی کتاب چھوڑ کر جا رہا ہوں ۔‘‘ جبرائیل نے کہا: وہ کتاب اللہ کی وجہ سے ہی گمراہ ہوں گے۔ ہر قوم اپنی خواہشات کے مطابق اس کی تاویل کرے گی، اور یوں وہ گمراہ ہو جائیں گے۔‘‘ 1 اس میں یہ الفاظ زیادہ ہیں : ’’وہ کتاب اللہ کی وجہ سے گمراہ ہوں گے۔ اس کی ابتداء ان کے امراء اور قرار سے ہوگی۔ امراء حقوق روکیں گے۔ لوگ اپنے حقوق مانگیں گے مگر ان کو کچھ نے ملے گا۔ پس وہ ایک دوسرے سے لڑیں گے اور قتل کریں گے۔ ان کے پیچھے قراء امراء کی اتباع کریں گے۔ پہلے یہ انہیں ڈھیل دیں گے۔ پھر وہ خود کوئی کمی نہیں کریں گے۔ میں نے کہا: جو کوئی ان میں سے محفوظ رہے گا، وہ کس چیز کی وجہ سے محفوظ رہے گا؟ فرمایا: اپنا ہاتھ روک لینے اور صبر کرنے کی وجہ سے۔ اگر انہیں ان کا حق دیا جائے تو لے لیں گے، اور اگر اُن کا حق روک لیا جائے تو چھوڑ دیں گے۔‘‘ 2 إبن إبی عاصم السنۃ: ۳۱۱۔ إبن وضاح ’’البدع‘‘ ۲۷۹۔ فسوي معرفۃ التاریخ: ۲؍ ۳۰۸۔ 2۔ یہ حدیث اسنادی اعتبار سے صحیح نہیں ہے۔ (العلل المتناہیہ: ۱۴۲۴)جب اس حدیث کا معنی صحیح ہے۔ (السنۃ للخلال: ۲۰۱۳)۔ ۴۳۔ حضرت حسن نے کہا ہے: ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے صحابہ کی مثال ایسے جیسے