کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 29
سوال کے مکروہ اور مذموم ہونے کی دلیل ہے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ کے ساتھ خاص تھا۔ اس لیے کہ اس وقت غیر حرام کے حرام ہونے کا اندیشہ تھا۔ یا ایسی چیز کے واجب ہونے کا اندیشہ تھا جو مشقت میں ڈال دے۔ اب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ اندیشہ نہیں رہا۔ لیکن اس کے مکروہ ہونے کا صرف یہ ایک سبب ہی نہیں ۔ اس کے علاوہ دیگر اسباب بھی ہیں ۔ (تفصیل کے لیے اصل کتاب دیکھ لیں )۔ ۲۸۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگوں میں سب سے بڑا مجرم وہ انسان ہے جس نے کسی ایسی چیز کے بارے میں سوال کیا، جو کہ حرام نہیں تھی، مگر اس کے سوال کی وجہ سے حرام ہو گئی۔ 1 الإبانۃ الکبری: ۲۹۱۔ بخاری: ۷۲۸۹۔ مسلم: ۲۳۵۸۔ ۲۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جو کوئی بدعت ایجاد کرے یا کسی بدعتی کو پناہ، ٹھکانہ دے، اس پر تمام لعنت کرنے والوں کی لعنت، اور فرشتوں اور تمام لوگوں کی لعنت اللہ تعالیٰ اس کی فرض یا نفل عبادت قبول نہ فرمائیں گے۔‘‘ 1 أحمد: ۹۹۳۔ أبو داؤد: ۴۵۳۰۔ النسائی: ۶۹۱۱۔ صحیح۔ حضرت حسن سے پوچھا گیا: حدیث (بدعت)کیا ہے؟ فرمایا: تمام فتنہ گر بدعتی ہیں ، اور تمام خواہش پرست بدعتی ہیں ۔ 1 ذم الکلام: ۱۳۵۷۔ ابو داؤد نے مراسیل میں حضرت حسن بصری سے نقل کیا ہے، فرمایا: صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ حَدَث کیا ہے؟ تو آپ نے فرمایا: سنت کو چھوڑ کر بدعت کو پکڑنا۔ بلا حد مثلہ کرنا، اور بغیر حق کے مال اچک لینا۔ 1 مراسیل: ۵۳۵۔ اسی مضمون کی روایت زید بن اسلم سے ھی مروی ہے، دیکھیں : الإبانۃ الکبری: ۲۰۲۔ ۳۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جہنم کے کتے اہل بدعت ہیں ۔‘‘ 1 کنز الاعمال: ۱۰۹۴۔ الرد علی المبتدعۃ لابن البنا: ۱۲۔