کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 28
’’وہی ہے جس نے تجھ پر یہ کتاب اتاری، جس میں سے کچھ آیات محکم ہیں ، وہی کتاب کی اصل ہیں اور کچھ دوسری کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں ، پھر جن لوگوں کے دلوں میں تو کجی ہے وہ اس میں سے ان کی پیروی کرتے ہیں جو کئی معنوں میں ملتی جلتی ہیں ، فتنے کی تلاش کے لیے اور ان کی اصل مراد کی تلاش کے لیے، حالانکہ ان کی اصل مراد نہیں جانتا مگر اللہ اور جو علم میں پختہ ہیں وہ کہتے ہیں ہم اس پر ایمان لائے، سب ہمارے رب کی طرف سے ہے اور نصیحت قبول نہیں کرتے مگر جو عقلوں والے ہیں ۔‘‘
۲۴۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کثرت مسائل کو نا پسند سمجھتے تھے۔ 1
1۔ البخاری: ۴۴۶۸۔ تمہید لإبن عبدالبر: ۲۱؍ ۲۹۰۔
امام مالک رحمہ اللہ فرماتے ہیں : نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کثرت سوال سے منع کیا ہے، مجھے علم نہیں کیا یہ وہی چیز ہے جس سے میں تمہیں منع کرتا ہوں یعنی کثرت مسائل سے، تو پھر یقیناً رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے منع فرمایا ہے اور اسے معیوب سمجھا ہے، یا پھر اس سے مراد لوگوں سے مانگتا ہے؟
۲۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے أغلوطات سے منع کیا ہے۔ 1
1۔ امام عیسیٰ بن یونس فرماتے ہیں أغلوطات سے مراد بلا ضرورت کی چیزیں ہیں ، یہ کیوں ہوا؟ کیسے ہوا؟ وغیرہ۔ االإبانۃ الکبری: ۳۰۴۔ أحمد: ۲۳۶۸۷۔ أبو داؤد: ۳۶۵۶۔ الأوسط للطبرانی: ۸۲۰۴۔ ابن قطان نے اسے ضعیف کہا ہے۔ الوہم والایہام: ۱۵۰۲۔
۲۶۔ اور کہا گیا ہے: اس سے مراد سخت اور مشکل مسائل ہیں ۔ 1
1۔ یہ اوزاعی کا قول ہے، دیکھو: الإبانۃ الکبری: ۳۰۶۔ ذم الکلام: ۵۳۸۔ شرح السنۃ: ۱؍ ۳۰۸۔
۲۷۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’جب تک میں تمہیں چھوڑ دوں ، یا مجھے چھوڑ دو۔‘‘ 1
1۔ الإبانۃ الکبری: ۲۹۰۔ بخاری: ۷۲۸۸۔ اس کے الفاظ یہ ہیں اور جب تک میں تمہیں چھوڑ دو…الخ۔ مسلم: ۳۲۳۶۔ الخ۔
علامہ ابن رجب نے جامع العلوم والحکم (۱؍۲۴۳)میں فرمایا ہے: یہ حدیث کثرت