کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 27
اول:.....یہ لوگوں کے اقوال، ان کی باتوں اور اُن کے متعلق بحث و جستجو سے متعلق ہے، مثلاً کوئی کہے: فلاں نے یوں کہا اور فلاں نے یوں کہا۔ خواہ مخواہ تجسس میں لگا رہے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس سے وہ دینی امور مراد ہیں جن میں اختلاف واقع ہوا ہے۔ کوئی کیسے1۔ فلاں نے یوں کہا ہے، فلاں نے یوں کہا ہے، لیکن کسی ایک پر بھی یقین اور اس کا ثبوت نہ ہوتا کہ اس کی پیروی کر سکے، اور نہ ہی ان میں سے کسی قول کے اختیار کرنے میں احتیاط سے کام لے۔ مال ضائع کرنے سے مراد فضول خرچی کرنا اور اللہ کی نا فرمانی کے کاموں میں لگاتا ہے۔ اور کثرت سے سوال سے مراد، لوگوں سے ان کے مال کا سوال کرنا ہے۔ یعنی لوگوں سے مانگتا پھرے اور اپنی قدر حاجت پر اکتفاء نہ کرے۔ اس سے مراد امور دین کے متعلق بحث اور کثرت سوال بھی ہو سکتی ہے۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿وَ اِذَا قِیْلَ لَہُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَ اِلَی الرَّسُوْلِ قَالُوْا حَسْبُنَا مَا وَجَدْنَا عَلَیْہِ اٰبَآئَ نَا اَوَ لَوْ کَانَ اٰبَآؤُہُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ شَیْئًا وَّ لَا یَہْتَدُوْنَo﴾ (المائدۃ: ۱۰۴) ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے آؤ اس کی طرف جو اللہ نے نازل کیا ہے اور رسول کی طرف تو کہتے ہیں ہمیں وہی کافی ہے جس پر ہم نے اپنے باپ دادا کو پایا ہے۔ کیا اگرچہ ان کے باپ دادا کچھ بھی نہ جانتے ہوں اور نہ ہدایت پاتے ہوں ۔‘‘ اور کبھی یہ سوال متشابہ امور سے متعلق ہی ہو سکتا ہے، جن میں بظاہر ایمان ہو۔ ارشاد الٰہی ہے: ﴿ہُوَ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ عَلَیْکَ الْکِتٰبَ مِنْہُ اٰیٰتٌ مُّحْکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الْکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ فَاَمَّا الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِہِمْ زَیْغٌ فَیَتَّبِعُوْنَ مَا تَشَابَۃَ مِنْہُ ابْتِغَآئَ الْفِتْنَۃِ وَ ابْتِغَآئَ تَاْوِیْلِہٖ وَ مَا یَعْلَمُ تَاْوِیْلَہٗٓ اِلَّا اللّٰہُ وَ الرّٰسِخُوْنَ فِی الْعِلْمِ یَقُوْلُوْنَ اٰمَنَّا بِہٖ کُلٌّ مِّنْ عِنْدِ رَبِّنَا وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّآ اُولُوا الْاَلْبَابِo﴾ (آل عمران: ۷)