کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 26
اور شام کو ایمان کی حالت میں ہوگا اور صبح کافر ہو جائے گا۔ سوائے اس کے جسے اللہ تعالیٰ علم کے ساتھ زندہ رکھے۔ 1 الإبانۃ الکبری: ۲۶۵۔ سنن دارمی: ۳۵۰۔ ابن ماجہ: ۳۹۵۴۔ ذم الکلام: ۱۴۸۲۔ یہ حدیث صحیح مسلم: ۷۵۰۸ میں ایک دوسرے متن کے ساتھ بیان ہوئی ہے: ((بادروا بالأعمال.....الخ۔))1 أحمد: ۸۰۳۰۔ ترمذی: ۲۱۹۵۔ یہاں پر احیاء اللہ کا جملہ نہیں ۔ ۲۰۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میرے بعد ان دو کی پیروی کرو، یعنی ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما ۔‘‘ 1 أحمد: ۲۳۲۴۵۔ ترمذی: ۳۶۶۲۔ ابن ماجہ: ۹۷۔ الرد علی المبتدعۃ: ۶۔ ۲۱۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بنی اسرائیل کا معاملہ برابر اعتدال پر قائم رہا، یہاں تک کہ ان میں بدعتی پیدا ہوئے، جو کہ دوسری امتوں کے قیدیوں کی اولاد تھے۔ ان لوگوں نے رائے کو قبول کیا اور سنتوں کو ترک کر دیا۔‘‘ 1 الإبانۃ الکبری: ۸۲۵۔ ابن ماجہ: ۵۶۔ مسند بزار: ۲۴۲۴۔ سنن دار قطنی: ۴۲۸۱۔ مصنف ابن ابی شیبۃ: ۱۵؍ ۱۷۷۔ ذم الکلام: ۶۴۔ صحیح الاسناد۔ ۲۲۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((إنہ اللّٰہ لا ینتزع العلم.....الخ۔))1 البخاری: ۱۰۰۔ مسلم: ۲۶۷۳۔ بغودی: ۵۱۶۔ علامہ بغوی نے شرح السنہ: ۱؍ ۳۱۷ پر لکھا ہے کہ: سعید بن جبیر سے پوچھا گیا: لوگوں کی ہلاکت کیسے واقع ہو گی؟ فرمایا: ’’جب ان کے علماء وفات پا جائیں ۔‘‘ حسن کہتے ہیں : ’’حضرت عبداللہ بن مسعود کا فرمان ہے: عالم کی موت اسلام میں ایسا سوراخ جسے قیامت تک کوئی چیز بند نہیں کر سکتی۔ ۲۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا: قیل وقال سے، کثرت سوال سے اور مال کے ضائع کرنے سے۔‘‘ 1 الإبانۃ الکبری: ۳۰۲۔ بخاری: ۱۴۷۷۔ مسلم: ۱۱۵۔ علامہ بغوی نے شرح السنہ: ۱؍ ۲۰۳، لکھا ہے: قیل وقال کی دو توجہیات ہیں :