کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 166
ہیں ۔ ان میں سے کچھ رقص کرتے ہیں اور تالیاں بجاتے ہیں ، کپڑے پھاڑتے ہیں اور اپنے ان افعال پر کہتے ہیں یہ اللہ نے فرمایا ہے، یہ فلاں نے فرمایا ہے، یہ ولی نے فرمایا ہے۔ ان میں سے کوئی بات بھی اللہ تعالیٰ نے نہیں فرمائی اور نہ ہی صحابہ سے کوئی ایسا اثر مروی ہے اور نہ ہی ایسا کرنا سنت سے ثابت ہے، نہ ہی فلاں حوراء نے کہا ہے اور نہ کسی ولی نے۔ یہ انسان محض بدعتی، جھوٹا اور دروغ گو ہے۔1 الإبانۃ الکبری: ۳؍۱۹۸۔ ۵۲۴۔ ان میں ایک دوسرا گروہ ایسا ہے جو کہ زہد و عبادت ظاہر کرتے ہیں اور مکاسب اور معیشت کو حرام سمجھتے ہیں اور لوگوں سے مانگتے اور چپک کر سوال کرنے کو جائز سمجھتے ہیں ۔ شوق اور محبت کے دعوے دار ہیں ، کہ ان سے خوف اور ان کی امیدیں ختم ہو چکی ہیں ۔1 1۔ یہ خرافات صوفیوں کے ایک گروہ کی ہیں جو کہتے ہیں ہم اللہ کی عبادت اس کی جہنم کے خوف اور جنت کے شوق میں نہیں کرتے۔ بلکہ اس کی محبت میں اس کے دیدار کے شوق میں کرتے ہیں ۔ یہ کلام کتاب و سنت کے خلاف ہے۔ انبیاء اور اسلاف کا طریقہ اس کے خلاف رہا ہے۔ اللہ تعایلٰ ان حضرات کی تعریف میں فرماتے ہیں : ﴿اِنَّہُمْ کَانُوْا یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَ یَدْعُوْنَنَا رَغَبًا وَّ رَہَبًَا وَ کَانُوْا لَنَا خٰشِعِیْنَo﴾(الانبیاء: ۹۰)’’بے شک وہ نیکیوں میں جلدی کرتے تھے اور ہمیں رغبت اور خوف سے پکارتے تھے اور وہ ہمارے ہی لیے عاجزی کرنے والے تھے۔‘‘ خوف اور امید سے خالی عمل محض زندیقیت ہے جو اس قسم کے صوفیاء میں پائی جاتی ہے۔‘‘ ٭ یہ تمام قسم کے لوگ بدعتی ہیں او اس طرح کا دعوی کرنے والا اہل علم و معرفت کے ہاں انتہائی برا اور ناپسندیدہ ہے اس لیے کہ اللہ تعالیٰ کسب معیشت اور صناعت و تجارت کو کتاب و سنت کے احکام میں قیامت تک کے لیے حلال کیا ہے اور لوگوں سے مانگنے اور ان کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو بلاضرورت حرام کیا ہے۔1 لحدیث مسلم: ۲۳۶۳۔ ترمذی: ۶۵۲، حسن۔ احمد: ۶۵۳۰۔ بربہاری شرح السنۃ: ۱۱۳۔ ۵۲۵۔ علماء کا اجماع ہے اور ان کے مابین کوئی اختلاف نہیں کہ اللہ عزوجل نے اپنے بندوں پر خوف اور محبت فرض کیے ہیں اور لوگوں کو ان کی طرف بلایا ہے اور ترغیب و ترہیب کی دعوت دی ہے۔1