کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 165
ہے، تو اپنے آپ کو مشہور کرنا چاہتا ہے اور اگر جھوٹا ہے تو اللہ اسے تباہ کر دے۔1 1۔ ابن عدی؍ الکامل: ۵؍۳۴۶۔ یہ روایت موضوع ہے۔ اس کے مقابلہ میں حضرت عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وعظ .....الخ۔ ابو داود: ۴۵۹۹۔ ترمذی: ۲۶۷۶۔ ۵۲۱۔ فضیل بن عیاض کہتے ہیں : حضرت موسی بن عمران علیہ السلام نے اپنی قوم کو وعظ کیا، تو ایک آدمی نے اپنی قمیص پھاڑ ڈالی۔ پس اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ آپ اس سے کہیے اگر وہ سچا ہے تو میرے لیے اپنا دل بھی چیر کر دکھا دے۔1 احمد فی الزہد، ص: ۸۷۔ ابو نعیم؍ الحلیۃ: ۲؍۳۱۵۔ ۵۲۲۔ ابن مبارک کہتے ہیں : یہ جو لوگ ذکر سن کر غش کھا جاتے ہیں ہم انہیں اونچی دیواروں پر بٹھا کر ذکر سناتے ہیں پھر دیکھتے ہیں کہ یہ غش کھا کر گرتے ہیں یا نہیں ؟1 الإبانۃ الکبری: ۱۵۴۔ ابن سیرین سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو قرآن سن کر غش کھاتے ہیں ، تو آپ نے فرمایا: ہمارے اور ان کے درمیان ایک دیوار پر فیصلہ ٹھہرا۔ انہیں دیوار پر بٹھا کر قرآن سناتے ہیں ، پھر دیکھتے ہیں کہ اگر وہ گر گیا تو واقعی وہ ویسے ہی ہے جیسے وہ کہتا ہے۔ ’’الإبانۃ‘‘ (۱۵۳)میں ہے کہ حضرت انس سے ان لوگوں کے بارے میں پوچھا گیا جو قرآن سن کر غش کھاتے ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’وہ خوارج ہیں ۔‘‘ ’’سنن سعید بن منصور‘‘ (۹۵)میں ہے، حضرت عبداللہ بن عروہ بن زبیر کہتے ہیں : میں نے اپنی دادی حضرت اسماء سے پوچھا: اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب قرآن پڑھتے تو کیا کرتے؟ فرمایا: ’’ویسے ہی ہوتا جیسے قرآن نے ان کی تعریف کی ہے۔ آنکھیں بہہ پڑتیں اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ میں نے کہا: کچھ لوگ ایسے ہیں جو قرآن سنتے ہیں ت و ان پر غشی طاری ہو جاتی ہے۔ آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: اعوذ باللّٰہ من الشیطان الرجیم .....الخ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ فرماتے ہیں ، جمہور علماء کا کہنا ہے کہ جب کوئی واقعی مغلوب الحال ہو تو اس پر انکار نہیں کیا جا سکتا۔ اگر وہ ثبات کی حالت میں اس سے زیادہ کامل ہو۔ یہی وجہ ہے کہ امام احمد سے اس بابت پوچھا گیا، تو آپ نے فرمایا: حضرت یحییٰ بن سعید القطان کو قرآن پڑھ کر سنایا گیا تو آپ پر غشی طاری ہو گئی۔ اگر کوئی اس چیز کو لینے آپ سے روک سکتا تو یحییٰ بن سعید روکتے۔ میں نے ان سے بڑا عقل مند کوئی نہیں دیکھا اور امام شافعی کے ساتھ بھی ایسا ہی ایک واقعہ پیش آیا ہے اور حضرت علی بن فضیل بن عیاض کا قصہ مشہور ہے۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ بہت سارے لوگ ایسے بھی ہیں جن کی صداقت میں شک نہیں ہو سکتا۔ لیکن صحابہ کے احوال ویسے ہی تھے جیسا کہ قرآن میں بیان ہوا ہے، دل نرم پڑ جاتے، آنکھیں بہہ پڑتیں اور رونگٹے کھڑے ہو جاتے۔ (مجموع الفتاوی: ۱۱؍۷) ۵۲۳۔ لوگوں کا ایک گروہ ایسا ہے جو کہ تقشف کا اظہار کرتے ہیں اور ان کا طریقہ یہ ہے کہ جمع ہو کر قصیدے سنتے ہیں اور اس سے اپنے آپ کو بھلاتے اور دلوں کو خوش کرتے