کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 157
انسان بیت الخلاء میں بات چیت کرے۔1 لحدیث سعید .....الخ۔ ابوداود: ۱۵۔ ابن ماجہ: ۳۶۶۔ الدارقطنی: ۳؍۲۳۸۔ ۴۸۲۔ یا کوئی انسان مجامعت کرتے ہوئے بات چیت کرے۔ یا جماعت کرتے ہوئے اپنی عورت کی شرم گاہ کو دیکھے، یا عورت اس کی شرم گاہ کو دیکھے۔1 1۔ یہ اس حدیث کی طرف اشارہ ہے: ’’اور جب تم میں سے کوئی ایک اپنی بیوی یا باندی سے جماع کرے تو اس کی شرم گاہ کی طرف نہ دیکھے، اس سے اندھا پن پیدا ہوتا ہے اور دوسری روایت میں ہے، جب کوئی جماع کرے تو شرم گاہ کو نہ دیکھے، اس سے اندھا پن پیدا ہوتا ہے اور نہ ہی کثرت سے کلام کرے اس سے گونگا پن پیدا ہوتا ہے۔ یہ تمام روایات ضعیف بلکہ موضوع ہیں ۔ (الموضوعات لابن الجوزی: ۲؍۲۷۱۔ الضعیفۃ: ۱۹۵) ’’صحیح إبن حبان‘‘ (۵۵۷۷)میں ہے: سلیمان بن موسی نے عطاء سے اس آدمی کے متعلق پوچھا: جو اپنی بیوی کی شرم گاہ کو دیکھتا ہے، تو آپ نے فرمایا: میں نے حضرت عائشہ سے یہ مسئلہ دریافت کیا: آپ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: میں اور میرے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم ایک ہی برتن میں نہاتے اور ہمارے ہاتھ آپس میں ٹکراتے اور آپ نے وہ بوتن بھی دکھایا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے فرمایا: ’’اپنی شرم کی حفاظطت کرو، سوائے اپنی بیوی اور باندی کے۔‘‘ (مسائل حرب: ۱؍۱۲۵)ابن ابی زید نے ’’الجامع‘‘ (۲۱۱)پر امام مالک سے نقل کیا ہے آپ سے پوچھا گیا: کیا کوئی انسان بلا پردہ اپنی بیوی سے جماع کر سکتا ہے؟ فرمایا: ہاں ۔ پھر پوچھا: لوگ کہتے ہیں : ایسا کرنا مکروہ ہے۔ آپ نے فرمایا: لوگوں کی باتیں چھوڑ دو۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مل کر نہایا کرتے تھے۔ پس جماع زیادہ حق دار ہے کہ کپڑے اتار دئیے جائیں ۔ اور فرمایا: دوران جماعت ایک دوسرے کی شرم گاہ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ ۴۸۳۔ اور یہ بھی منع ہے کہ میاں بیوی دونوں ایک ہی کپڑے سے پونچھیں ۔1 1۔ اس کی کوئی مستند دلیل نہیں ۔ ’’کشاف القناع‘‘ (۵؍۱۹۴)پر ہے۔ حلوانی نے ’’التبصرۃ‘‘ میں کہا ہے: یہ مکروہ ہے کہ مرد اپنے آلہ تناسل کو اسی کپڑے سے صاف کرے جس سے عورت نے اپنی شرم گاہ صاف کی ہے۔ لیکن یہ قول حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی اس روایت کے خلاف ہے جس میں آپ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں : عورت کی عقلمندی کی نشانی یہ ہے کہ وہ اپنے پاس ایک کپڑا رکھے۔ جب میاں اس سے جماع کرے تو وہ کپڑا اسے دے تاکہ وہ اپنے کو صاف کر لے اور پھر اس سے اپنی شرم گاہ کو یہ بھی صاف کر لے۔ (البیہقی فی الکبری: ۲؍۴۴۔ یہ حدیث موقوف ہے) ۴۸۴۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ کوئی انسان کسی دوسرے کے استقبال کے لیے کھڑا ہو، سوائے اپنے والد، یا عالم یا عادل حاکم کے استقبال کے۔1 الترمذی: ۲۹۷۸۔ حسن، صحیح، غریب۔