کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 145
کیا کرتے تھے اور اس کا حکم بھی دیتے۔1 1۔ یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے اس قول کی طرف اشارہ ہے کہ سنت یہ ہے کہ نماز میں ہتھیلی پر ہتھیلی ناف کے نیچے رکھی جائے۔ (زوائد عبداللہ فی المسند: ۸۷۵۔ ابو داود: ۷۵۶۔ اس روایت کو بیہقی اور ابن قطان نے ضعیف کہا ہے۔ امام ترمذی نے ’’السنن‘‘ (۲؍۳۲)پر صحابہ اور تابعین کا اختلاف نقل کیا ہے۔ ان میں سے بعض کی رائے ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کی تھی اور بعض ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی رائے رکھتے تھے۔ اس معاملہ میں اُن کے ہاں وسعت تھی۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے ایک روایت سینہ پر ہاتھ باندھنے کی ہے اور حضرت سعید بن جبیر سے روایت کیا گیا ہے کہ آپ ناف کے اوپر ہاتھ باندھنے کا حکم دیتے تھے۔ احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے روایت ہے، فرمایا: ناف سے تھوڑا اوپر ہاتھ باندھے جائیں ۔ علی بن ابی طالب، ابوہریرہ رضی اللہ عنہما اور ابراہیم نخعی اور ابو مجلز رحمہما اللہ کا یہی قول ہے کہ ناف کے نیچے ہاتھ باندھے جائیں ۔ یہی قول سفیان ثوری اور اسحاق بن راہویہ کا بھی ہے۔ اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں : ناف کے نیچے ہاتھ باندھنے کی حدیث زیادہ قوی اور تواضع کے زیادہ قریب ہے۔ ۳۹۴۔ جب امام وَ لَا الضَّآلِّیْنَ کہے تو اونچی آواز میں آمین کہیں اور آواز کو لمبا کریں ۔1 1۔ صحیح البخاری، باب جہر الامام بالتامین۔ ۳۹۵۔ کثرت کے ساتھ اللہ کا ذکر کرنا، مساجد میں علم و ذکر قائم کرنا، گہرائی میں جانا ترک کرنا فضول کام ترک کرنا اور مسجد میں دنیا کی باتیں نہ کی جائیں ، بے شک ایسا کرنا مکروہ ہے۔ اس بارے میں انتہائی سخت اور شدید احادیث مروی ہیں ، جو کہ سند کے اعتبار سے جید ہیں اور ان کے راوی ثقہ ہیں ، ان روایات میں سے۔ ۳۹۶۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ رضی اللہ عنہم سے روایت کیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’آخری زمانہ میں ایسے لوگ ہوں گے، جو مساجد میں بیٹھیں گے، مگر ان کے سامنے صرف دنیا ہو گی، ان کے ساتھ مت بیٹھو، اللہ تعالیٰ کو ان کی کوئی ضرورت نہیں ۔‘‘1 الطبرانی: ۱۰۴۵۲۔ إبن حبان: ۶۷۶۱۔ ۳۹۷۔ حضرت عبداللہ بن عمرو سے مروی ہے، فرمایا: قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہو گی جب تک مساجد میں ایسے لوگ بیٹھیں گے ان میں کوئی بھی ایمان والا نہیں ہو گا۔ وہ صرف دنیا کی باتیں کرتے رہیں گے۔1 الایمان ابن ابی شیبۃ: ۱۰۱۔ حاکم: ۴؍۴۴۲۔ السنۃ للخلال: ۱۳۰۸۔ صحیح الاسناد۔