کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 132
1۔ حضرت ابن عمر والی حدیث......۔ مسلم: ۳۶۵۰۔ ترمذی: ۱۱۷۶۔ اور کہا ہے: اصحاب النبی صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے اہل علم کے ہاں اسی پر عمل رہا ہے کہ طلاق کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ طہر کی حالت میں بغیر جماع کیے طلاق دی جائے، اور بعض اہل علم نے کہا ہے کہ اگر حالت طہر میں تین طلاقیں اکٹھی بھی دے دیں تو وہ سنت ہوں گی۔ یہ امام شافعی، امام احمد اور دیگر کا قول ہے، اور بعض نے کہا ہے: سنت اس وقت تک نہ ہوگی جب تک ایک ایک کر کے طلاق نہ دے۔ یہ سفیان ثوری اور اسحق بن راہویہ کا قول ہے، اور حمل والی عورت کی طلاق کے بارے میں کہتے ہیں : جب چاہے اسے طلاق دے دے۔ یہ شافعی، احمد اور اسحق کا قول ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر والی روایت اسے کہو کہ اس سے.....الخ۔ 1 رواہ مسلم: ۵۲۵۱۔ شرح السنۃ: ۹؍ ۲۰۴۔ ٭ (جب تین طلاق دے دے)تو عورت اس پر حرام ہو جائے گی، اور اس وقت تک حلال نہیں ہو گی جب تک دوسرے شوہر سے شادی نہ کر لے، پھر وہ مر جائے، یا طلاق دے دے، اور اس سے پہلے ان کے مابین صحبت اور دخول ہو چکا ہو۔ 1 1۔ اس مسئلہ میں اہل علم کا اختلاف ہے کہ جب تین طلاقیں یکبارگی دے دی جائیں تو کیا یہ سنت ہوں گی یا بدعت؟ (الائم: ۶؍ ۳۵۲۔ المغنی: ۱۰؍ ۳۳۰)اس لیے کہ اس نے تین طلاقیں دی ہیں ، اور یہ طلاق واقع ہو چکی ہے، اور یہ تین ہی معتبر ہوں گی۔ یہ صحابہ، تابعین اور ان اُن کے بغیر اہل علم کا قول ہے اور امیر المؤمنین عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو اسی پر جمع کیا تھا، کسی نے اس مسئلہ میں آپ کی مخالفت نہیں کی۔ (ابو داؤد: ۲۱۹۷)مجاہد کہتے ہیں : میں ابن عباس کے پاس تھا، ایک آدمی آیا اور اس نے کہا: میں نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دی ہیں ۔ ابن عباس خاموش ہو گئے۔ حتیٰ کہ مجھے خیال ہوا کہ آپ اس کی بیوی واپس اس کو لوٹا دیں گے۔ پھر آپ نے فرمایا: تم میں سے کوئی ایک بے لگام ہو کر حماقت کا ارتکاب کرتا ہے، پھر کہتا ابن عباس، ابن عباس۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿فَاِِذَا بَلَغْنَ اَجَلَہُنَّ فَاَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ اَوْ فَارِقُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ وَّاَشْہِدُوْا ذَوَی عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّہَادَۃَ لِلّٰهِ ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْآخِرِ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا﴾ (الطلاق: ۲)’’پھر جب وہ اپنی میعاد کو پہنچنے لگیں تو انھیں اچھے طریقے سے روک لو، یا اچھے طریقے سے ان سے جدا ہو جاؤ اور اپنوں میں سے دو صاحب عدل آدمی گواہ بنا لو اور شہادت اللہ کے لیے قائم کرو۔ یہ وہ (حکم)ہے جس سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو اللہ اور یوم آخر پر ایمان رکھتا ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا