کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 131
صحابہ نے ایسے ہی کیا۔ پہلے مسلمانوں کے ہاں یہی طریقہ تھا، اور علماء دین یہی کہتے تھے۔ اس کا انکار اور رد اہل بدعت کے علاوہ کسی کو نہیں تھا۔ اہل بدعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف، آپ کی سنت سے بے رغبت اور آپ کے اقوال کو رد کرنے والے ہیں ۔ 1 اور سنت میں سے یہ بھی ہے کہ: البخاری باب المسح علی الخفین، مسلم: ۵۶۰۔ للالکائی: ۳۱۴۔ ۳۴۲۔ افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کی جائے۔ ۳۴۳۔ ’’سورج کی ٹکیا جب غروب ہو جائے تو ستاروں کے طلوع سے قبل نماز مغرب پڑھنے میں جلدی کی جائے۔‘‘ 1 السنۃ خلال: ۷۹۱۔ ۳۴۴۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میری امت اس وقت تک خیریت پر رہے گی جب تک افطار میں جلدی اور سحری میں تاخیر کریں ۔‘‘ 1 أحمد: ۲۱۳۱۲۔ البخاری: ۱۸۵۶۔ مسلم: ۲۵۲۲۔ ۳۴۵۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’لوگ اس وقت تک خیریت پر رہیں گے جب تک نماز مغرب میں ستاروں کے مل جانے تک دیر نہ کریں۔‘‘ 1 أحمد: ۱۷۳۱۹۔ ابو داؤد: ۴۱۸۔ ابن خزیمۃ: ۳۳۹۔ صحیح۔ ۳۴۶۔ سلیمان بن داؤد الاودی کہتے ہیں : ’’میں حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کے ساتھ نماز مغرب پڑھا کرتا تھا، اور مجھے علم نہیں کہ سورج غروب ہوا ہوتا تھا یا نہیں ۔‘‘ 1 مصنف ابن ابی شیبۃ: ۳۳۹۴۔ وصححہ ووافقہ الذہبي۔ ۳۴۷۔ اور جو کوئی اپنی بیوی کو طلاق دینا چاہے تو سنت یہ ہے کہ: ’’اسے صرف ایک طلاق اس وقت دے جب وہ حیض سے پاک ہو جائے، اور اس طہر میں اس نے صحبت نہ کی ہو، اور پھر اسے چھوڑ دے، حتیٰ کہ وہ اپنی عدت پوری کر لے۔‘‘ اور اگر اس نے ایک ہی لفظ سے تین طلاقیں دیں ، اور وہ بھی اس طہر میں جس میں وہ اسی کے ساتھ مجامعت کر چکا تھا، یا وہ عورت حالت حیض میں تھی، تو یقیناً اس نے بدعی طلاق دی ہے۔ 1