کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 121
ہیں ، اور یہ لوگ بخشے ہوئے ہیں ، اور صفین و جمل اور الدار کے واقعات کی کتب کو نہ دیکھا جائے اور ان کے تمام جھگڑوں سے صرف نظر کیا جائے۔ نہ یہ کتابیں اپنے لیے لکھی جائیں ، نہ کسی دوسرے کے لیے ، اور نہ ہی کسی سے روایت کی جائیں ، اور نہ ہی کسی دوسرے کو پڑھ کر سنائی جائیں ، اور نہ ہی کسی دوسرے راوی سے سنی جائیں ۔ اس پر اس امت کے بڑے علماء کا اتفاق ہے اور ہماری بیان کردہ چیزوں سے انہوں نے منع کیا ہے، ان علما میں : حماد بن زید، یونس بن عبید، سفیان الثوری، سفیان بن عیینہ، عبداللہ بن ادریس، مالک بن انس، ابن ابی ذوئب، ابن المنکدر، ابن مبارک، شعیب بن حرب، ابو اسحق الفرازی، یوسف بن سباط، احمد بن حنبل بشر ابن الحارث اور عبدالوہاب الورّاق شامل ہیں ۔ ان تمام علماء میں اس سے منع کیا گیا ہے، اور ایسی کتابوں کو دیکھنے اور ان کو سننے سے منع کیا ہے۔ نہ ہی یہ کتابیں تلاش کی جائیں ، اور نہ ہی ان کو اکٹھا کرنے کا اہتمام کیا جائے۔ 1 1۔ یہ اثر پہلے بھی نمبر ۲۲۰ پر گزر چکا ہے۔ حرب الکرمانی نے السنۃ میں تمام شہروں کے اہل سنت والجماعت علماء کا اس عقیدہ پر اجماع نقل کیا ہے۔ 1 السنۃ، کتاب المسائل: ۷۵۔ خلال نے السنہ (۷۹۹)میں لکھا ہے، مروزی کہتے ہیں : میں نے سنا امام احمد فرما رہے تھے: ’’کچھ لوگ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ردی قسم کی روایات لکھتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ یہ آپ نے حکایت نقل کی ہیں ۔‘‘ میں کہتا ہوں : میں اس بات کا انکار نہیں کرتا کہ کوئی محدث ان روایات کو تحریر کرے تاکہ وہ ان کی جانچ پرکھ کر سکے۔ امام احمد اس پر بہت زیادہ غصہ ہوئے، اور اس الزام کا بہت سختی سے انکار کیا، اور فرمایا: یہ باطل ہے۔ معاذ اللہ1۔ کہ میں اس کا انکار نہ کروں ۔ اگر ایسی باتیں کسی ادنی درجہ کے گمنام انسان کی بابت ہوتیں میں تب بھی ان کا انکار کرتا، تو پھر اصحاب محمد کے بارے میں یہ کیسے سوچا جا سکتا ہے؟ اور فرمایا: