کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 119
تکفیر نہیں کی جائے گی، اور معصیت کی وجہ سے ہم اسے اسلام سے خارج نہیں سمجھیں گے۔ نیک کام کرنے والے کے لیے اللہ تعالیٰ سے اچھی امید رکھتے ہیں ، اور بدکردار کے متعلق اللہ سے ڈرتے ہیں ۔ ہم ان کے بارے میں معتزلہ جیسی بات نہیں کہتے، اُن کا عقیدہ ہے کہ جس نے زندگی میں ایک گناہ بھی کیا، یا ایک دانے کے برابر ظلم کیا، تو وہ کافر ہو گیا۔ جو کوئی ایسا عقیدہ رکھتا ہے تو یقیناً وہ اللہ تعالیٰ پر بہت بڑا بہتان گھڑتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کو اس کی صفات نرمی، محبت، معافی، احسان، بخشش، قبولیت توبہ وغیرہ سے بری قرار دیتا ہے، اور وہ کہنا چاہتا ہے کہ انبیاء کرام حضرت آدم اور اُن کے بعد آنے والے کافر تھے۔ کیونکہ فرمان الٰہی ہے: ﴿فَاَکَلَا مِنْہَا فَبَدَتْ لَہُمَا سَوْاٰتُہُمَا وطَفِقَا یَخْصِفٰنِ عَلَیْہِمَامِنْ وَّرَقِ الْجَنَّۃِ وَ عَصٰٓی اٰدَمُ رَبَّہٗ فَغَوٰیo﴾ (طہ: ۱۲۱) ’’پس دونوں نے اس میں سے کھا لیا تو دونوں کے لیے ان کی شرم گاہیں ظاہر ہوگئیں اور وہ دونوں اپنے آپ پر جنت کے پتے چپکانے لگے اور آدم نے اپنے رب کی نافرمانی کی تو وہ بھٹک گیا۔‘‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں کئی مواقع پر انبیاء کرام کے گناہ بیان کیے ہیں ۔ حضرت یوسف علیہ السلام کے بھائیوں نے اپنے بھائی پر ظلم کیا، اور اپنے باپ کی نافرمانی کی، اور اللہ تعالیٰ کی معصیت کا ارتکاب کیا، مگر اس کے باوجود وہ بہترین نیکوکار اور اہل جنت میں سے ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی سے فرمایا ہے: ﴿لِّیَغْفِرَلَکَ اللّٰہُ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِکَ وَمَا تَاَخَّرَ وَیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکَ وَیَہْدِیَکَ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًاo﴾ (الفتح: ۲) ’’تاکہ اللہ تیرے لیے بخش دے تیرا کوئی گناہ جو پہلے ہوا اور جو پیچھے ہوا اور اپنی نعمت تجھ پر پوری کرے اور تجھے سیدھے راستے پر چلائے۔‘‘ اور ارشاد فرمایا: