کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 109
ہیں اور بہت سے ایسے رسولوں کی طرف جنھیں ہم نے تجھ سے بیان نہیں کیا اور اللہ نے موسیٰ سے کلام کیا، خود کلام کرنا۔‘‘ یہ آیت جہمیہ پر حجت ہے، جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف کلام کی نسبت مجازی ہے۔ 1 شرح الستہ بربہاری: ۷۳۔ الشریعۃ: ۳؍ ۱۱۰۹۔ امام آجری فرماتے ہیں : جو یہ عقیدہ رکھتا ہے کہ اللہ نے حضرت موسیٰ سے کلام نہیں کیا، تو وہ نص قرانی کو رد کرتا ہے، اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ کفر عظیم کا مرتکب ہوتا ہے۔ ٭ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو اپنا پکا دوست بنایا تھا۔ 1 نکت القرآنہ: ۱؍ ۲۷۴ میں آیت: ﴿وَ مَنْ اَحْسَنُ دِیْنًا مِّمَّنْ اَسْلَمَ وَجْہَہٗ لِلّٰہِ وَ ہُوَ مُحْسِنٌ وَّاتَّبَعَ مِلَّۃَ اِبْرٰہِیْمَ حَنِیْفًا وَ اتَّخَذَاللّٰہُ اِبْرٰہِیْمَ خَلِیْلًا﴾ (النساء: ۱۲۵)’’اور دین کے لحاظ سے اس سے بہتر کون ہے جس نے اپنا چہرہ اللہ کے لیے تابع کر دیا، جب کہ وہ نیکی کرنے والا ہو اور اس نے ابراہیم کی ملت کی پیروی کی، جو ایک (اللہ کی)طرف ہو جانے والا تھا اور اللہ نے ابراہیم کو خاص دوست بنا لیا۔‘‘ کی تفسیر میں لکھا ہے: یہ آیت جہمیہ پر بہت بڑی حجت ہے۔ اُن کے بارے میں ہمیں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ اس موقع پر خلیل کا معنی فقیر کرتے ہیں ۔ 2 خلق أفعال العباد: ۳۔ الإبانۃ: ۲۳۹۸۔ امام الحجر، الرد علی الجہمیۃ: ۲۵۱۔ ۲۹۳۔ حضرت عیسیٰ بن مریم، اللہ تعالیٰ روح اور اس کا کلمہ ہیں ۔ آپ نے مردوں کو زندہ کیا، کوڑھے اور برص والے کو اچھا کیا، اور مٹی سے پرندے پیدا کرتے۔ یہ تمام امور اللہ تعالیٰ کی قدرت و ارادہ اور مشیت سے پیش آتے تھے۔ 1 الرد علی الجہمیۃ: ۲۵۱۔ ۲۹۴۔ ’’اور اس بات پر ایمان کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو اپنے ہاتھ سے پیدا کیا، اور جنت الفردوس کو اپنے دست مبارک سے بنایا۔‘‘ 1