کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 101
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ﴿فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا﴾ (طہ: ۱۲۴)’’تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے۔‘‘ اس سے مراد عذاب قبر ہے۔ ابن کثیر کہتے ہیں : اس حدیث کی سند جید ہے۔ 1 إبن حبان: ۳۱۱۹۔ ۲۶۲۔ پھر اس کے بعد: قبروں سے اٹھائے جانے کے لیے صور اسرافیل اور تشور (دوبارہ اٹھنے پر)ایمان کا مسئلہ ہے۔ دل کو یہ ضرور یقین دلایا جائے کہ تم نے مرنا ہے، اور قبر میں جھٹکا لگے گا، اور قبر میں تم سے سوال و جواب ہوں گے، اور مرنے کے بعد دوبارہ اٹھایا جانا ہے۔ اس پر ایمان لانا لازمی فریضہ ہے، اور اس کا انکار کرنے والا کافر ہے۔‘‘ 1 فرماتے ہیں : ہم نے حجاز، شام، عراق اور دوسرے ممالک میں جن علماء کو پایا اُن سب کا یہ عقیدہ تھا کہ، نفخ صور حق ہے۔ اس میں حضرت اسرافیل پھونک ماریں گے تو تمام مخلوق مر جائے گی۔ پھر اس میں دوسری بار پھونکیں گے تو تمام مخلوق اللہ کے سامنے حاضری کے لیے اٹھ کھڑی ہو گی، اور حساب و کتاب کے لیے تیار ہو گی۔‘‘ 2 حرب کرمانی: ۲۸۰ھ۔ السنۃ للحرب: ۴۱۔ ۲۶۳۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’تمہیں ننگے پاؤں ، ننگے سر اور بغیر ختنہ کے قبروں سے اٹھایا جائے گا۔‘‘ 1 اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں : مسلم: ۷۳۰۳۔ بخاری: ۳۳۴۹۔ ﴿یَوْمَ یَخْرُجُوْنَ مِنَ الْاَجْدَاثِ سِرَاعًا﴾ (المعارج: ۴۳) ’’جس دن وہ قبروں سے تیز دوڑتے ہوئے نکلیں گے۔‘‘ پس جو کوئی اللہ تعالیٰ کی ایک آیت یا ایک حرف کی تکذیب کرے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لائے ہوئے کسی عقیدہ کو رد کرے تو وہ کافر ہے۔‘‘ ۲۶۴۔ پھر دوبارہ اٹھائے جانے پر اور پل صراط پر ایمان ہے۔ وہاں پر مومنوں کا ورد ہوگا، مسلم سلم، سلامتی ہو سلامتی ہو۔ (یہ حضرت مغیرہ بن شعبہ والی روایت کی طرف اشارہ