کتاب: عقیدہ و آداب کی کتاب الشرح والابانہ - صفحہ 100
منکر و نکیر یہ دو فرشتے ہیں ، اور عذاب قبر بھی مانتے ہیں ۔ 1
1۔ طبقات الحنابلۃ: ۱؍ ۱۳۵۔
ابن شاہین نے السنۃ: ۳۶ پر سفیان ثوری کا قول نقل کیا ہے، فرمایا: معتزلہ عذاب قبر کے منکر ہیں ۔ ابن تیمیہ فرماتے ہیں : اہل سنت والجماعت کا اتفاق و اجتماع ہے کہ عذاب اور نعمتیں روح اور بدن کو نہیں ، اور بدن اور روح دونوں کو تکلیف ہو، یا بدن کو تکلیف ہو روں کو نہیں ۔ 1
1۔ دیکھو: مجموع الفتاوی: ۴؍ ۲۸۲۔ الشریعۃ: ۳؍ ۱۲۷۲۔ للالکائی: ۶؍ ۴۳۶۔
۲۵۸۔ حضرت براء نے روایت کیا ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگو۔‘‘ 1
1۔ أبو داؤد: ۴۷۵۳۔ السنۃ لعبداللّٰہ: ۱۴۱۸۔ اسے ابن مندہ، حاکم اور ابن تیمیہ نے صحیح کہا ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :
﴿فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا﴾ (طہ: ۱۲۴)
’’تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے۔‘‘
۲۵۹۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میت کو قبر میں بٹھایا جاتا ہے۔‘‘ 1
1۔ الأوسط للطبرانی: ۳۱۸۲۔ حضرت اسماء فرماتی ہیں .....الخ۔ رواہ البخاری: ۱۳۷۴۔ مسلم: ۷۳۱۸۔ بروایۃ ابن عباس۔
۲۶۰۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اگر قبر کی بھینچ سے یا فرمایا: قبر کے دباؤ سے کوئی بچا ہوگا، تو وہ سعد بن معاذ ہی بچا ہوگا۔‘‘ 1
1۔ أحمد: ۲۴۲۸۳۔ السنۃ لعبداللّٰہ: ۱۳۹۰۔ البدایۃ والنہایۃ: ۴؍ ۱۴۶۔
۲۶۱۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿فَاِنَّ لَہٗ مَعِیْشَۃً ضَنْکًا﴾ (طہ: ۱۲۴)’’تو بے شک اس کے لیے تنگ گزران ہے۔‘‘ مفسرین نے اس کی تفسیر میں لکھا ہے: اس سے مراد عذاب قبر ہے۔‘‘ 1
1۔ تفسیر الطبری: ۱۶؍۲۲۸۔ تفسیر ابن کثیر: ۵؍ ۳۲۲۔