کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 88
مددگار بن کر رہنے، کا حکم بھی فرمایا ہے اور اس کی اُنھیں ترغیب بھی دلائی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھیں ، رب ذوالجلال و الاکرام نے جماعت سے جدا ہو کر فرقہ بندی اختیار کرنے ، باہم اختلاف اور ایک دوسرے سے خوب جھگڑنے اور خون خرابے سے منع فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ کا ارشاد گرامی قدر ہے :
﴿وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللّٰهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا﴾ (آل عمران:۱۰۳)
’’ اور اے مسلمانو! سب مل کر اللہ کی رسی (اس کے دین :جماعۃ المسلمین المومنین من اخیارالامّۃ یا قرآن و سنت) کو مضبوطی سے تھامے رہو اور باہم متفرق نہ ہو جاؤ۔ (پھوٹ نہ کرو اور نہ پھوٹ ڈالو۔)‘‘
دوسرے مقام پر اللہ تبارک و تعالیٰ نے یوں حکم فرمایا ہے :
﴿وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ تَفَرَّقُوا وَاخْتَلَفُوا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْبَيِّنَاتُ ۚ وَأُولَـٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ﴾ (آل عمران:۱۰۵)
’’اور ان لوگوں کی طرح مت ہو جاؤ جو پھوٹ ڈال کر الگ الگ ہوگئے اور صاف صاف حکم آنے کے بعد اختلاف کرنے لگے۔ یہی لوگ ہیں جن کو (آخرت میں) بڑا عذاب ہوگا۔‘‘[1]
سیدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
[1] اس آیت میں جس اختلاف کی مذمت ہے اس سے وہ اختلاف مراد ہے جو کتاب و سنت کے نصوص کو چھوڑ کر اختیار کیا جائے۔ عام اس سے کہ اصولی ہو یا فروعی ورنہ اجتہادی مسائل میں اختلاف کی گنجائش چلی آئی ہے۔ بشرطیکہ تعصب سے ہٹ کر اجتہاد کیا جائے اور اجتہادی مسائل پر عمل کرنے میں جمود نہ ہو۔ بلکہ جس امام کا فتویٰ اقرب الی الکتاب والسنۃ ہو اسی پر عمل کر لیا جائے۔ الغرض اجتہادی مسائل میں بھی تقلید شخصی کی گنجائش نہیں ۔ ’’الَّذینَ تفرّقُوا وَاخْتَلفُوا‘‘ سے مراد یہود و نصاریٰ ہیں ۔ پھر اس امت کے اہل بدعت کے تمام فرقے بھی اس میں داخل ہیں جو اختلاف وتفریق میں یہود کی روش پر چل رہے ہیں ۔ ایک حدیث میں ہے: پہلی اُمتوں کے بہتر فرقے ہو گئے جبکہ میری امت تہتر فرقوں میں بٹ جائے گی۔ فرمایا: سب دوزخی ہیں مگر ایک فرقہ جو مَا اَنَا عَلَیْہِ وَاَصْحَابِیْ پر عمل پیرا رہے گا۔