کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 82
’’انہی مسلمانوں میں کچھ مرد تو ایسے ہیں جنھوں نے اللہ تعالیٰ سے جو اقرار کیا تھا اس میں سچے اترے۔ ان میں سے بعض تو اپنا کام پورا کر چکے (یا اپنی منت پوری کر چکے) اور بعض (ابھی) راہ دیکھ رہے ہیں۔ اور ان لوگوں نے (اپنے اقرارکو) ذرا نہیں بدلا۔‘‘ [1]
اور پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کے بعد پہلے تینوں قرون مفضّلہ میں سے تابعین عظام رحمہم اللہ جمیعًا تھے کہ جن کے متعلق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا :((خَیْرُ النَّاسِ قَرْنِيْ ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُوْنَھُمْ، ثُمَّ الَّذِیْنَ یَلُونَھُمْ۔))… ’’تمام لوگوں میں سب سے بہتر لوگ میرے زمانہ کے لوگ (صحابہ کرام رضی اللہ عنہم) ہیں۔ پھر وہ لوگ (صحابہ کے بعد تمام لوگوں میں) سب سے بہتر ہیں جو ان سے متصل زمانہ کے لوگ (تابعین کرام) ہوں گے۔ پھر وہ لوگ (تابعین رحمہم اللہ و صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بعد تمام لوگوں میں) سب سے بہتر ہیں جو ان سے متصل زمانہ کے لوگ (تبع تابعین رحمہم اللہ) ہوں گے۔‘‘ [2]
[1] اس اقرار سے مراد وہ اقرار ہے جو مدینہ منورہ کے انصار رضی اللہ عنہم نے ’’لیلہ عقبہ‘‘ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تھا۔ اور وہ یہ تھا کہ آخردم تک وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ دیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حفاظت و مدافعت میں اپنی جانیں تک قربان کر دیں گے۔ یا اس سے مراد بعض ان لوگوں کا عہد ہے جو کسی وجہ سے غزوہ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے اور انھوں نے عہد کیا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ نے انھیں آزمائش کا موقع دیا تو وہ کسی دوسرے معرکہ میں ثابت قدم رہیں گے اور پیٹھ نہیں دکھائیں گے۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میرے چچا انس بن نضر رضی اللہ عنہ غزوۂ بدر میں شریک نہ ہو سکے تھے۔ اس کا انھیں بڑا رنج ہوا۔ کہنے لگے کہ اب اگر کوئی جنگ ہوئی تو اللہ دیکھے گا کہ میں کیا کرتا ہوں ۔ چنانچہ غزوہ ٔ احد میں شریک ہوئے اور پھر لڑتے لڑتے شہید ہو گئے۔ ان کے بدن پر تلوار ، تیر اور نیزے کے اسی سے زیادہ زخم پا ئے گئے تھے۔ ان کی بہن ربیع بن نضر رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں اپنے بھائی کو صرف ان انگلیوں کے پوروں سے پہچان سکی تھی۔ یہ آیت ان کے اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں نازل ہوئی۔ (ابن کثیر)
[2] صحیح البخاری ، حدیث ۲۶۵۲ و صحیح مسلم حدیث ۶۴۷۲۔