کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 80
نمونہ (اُسوہ حسنہ) اور قابل اتباع صالح پیشوا ہیں۔ آپ ایسے بے مثل آئیڈیل ہیں کہ جن کی اتباع و اقتداء ہم پر واجب ہے۔ چنانچہ اللہ رب العالمین ارشاد فرماتے ہیں :
﴿لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللّٰهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللّٰهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللّٰهَ كَثِيرًا﴾ (الاحزاب:۲۱)
(مسلمانو) بلاشک و شبہ یقینا تمہارے لیے اللہ کے رسول میں ہمیشہ سے اچھا نمونہ ہے ہر اس شخص کے لیے جو اللہ تعالیٰ اور پچھلے دن (قیامت) سے ڈرتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح اللہ کریم نے اپنے درج ذیل فرمان میں اپنی رضا کو اپنے حبیب و خلیل پیغمبر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا کے ساتھ ملا دیا ہے۔ (یعنی مسلمانو ں کے لیے دنیا و آخرت دونوں جہانوں میں کامیابی کے لیے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دونوں کی خوشی و رضا حاصل کرنا ضروری ہے۔)چنانچہ فرمایا:
﴿يَحْلِفُونَ بِاللّٰهِ لَكُمْ لِيُرْضُوكُمْ وَاللّٰهُ وَرَسُولُهُ أَحَقُّ أَن يُرْضُوهُ إِن كَانُوا مُؤْمِنِينَ﴾ (التوبہ:۶۲)
’’(مسلمانو) یہ لوگ تم کو راضی کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کی قسمیں کھاتے ہیں۔ اور اگر ان میں ایمان ہوتا تو (پہلے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو راضی کرتے) اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کو راضی کرنا زیادہ ضروری تھا۔ ‘‘ [1]
ایک مقام پر رب العزت نے اپنے محبوب نبی محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کو اپنی محبت کی علامت قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿قُلْ إِن كُنتُمْ تُحِبُّونَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُونِي يُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَيَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوبَكُمْ
[1] منافقین اپنی خلوتوں اور تنہائیوں میں مسلمانوں اور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر پھبتیاں کستے۔ مسلمانوں کو یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اگر کبھی ان کی اطلاع ہو جاتی تو وہ قسمیں کھا کھا کر مسلمانوں کو راضی کرنے کی کوشش کرتے، اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پروا نہ کرتے۔ منافقین کی اسی حرکت کا اس آیت میں ذکر کیا گیا ہے۔