کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 48
أنْ یُشِرُکُوْا بِیْ مَالَمْ أُنْزِلْ بِہٖ سُلْطَانًا …)) [1]
’’آگاہ رہو !میرے رب نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں وہ کچھ سکھلاؤں جو تم نہیں جانتے، ان علوم و معارف میں سے کہ جو اس نے خود مجھے آج کے دن سکھلائے ہیں۔ (چنانچہ اللہ عزوجل فرماتے ہیں :) میں جو مال اپنے بندے کو دوں وہ اس کے لیے حلال ہے۔[2]اور میں نے اپنے سب بندوں کو میرے لیے یکسوئی اختیار کرنے والے مسلمان پیدا کیا ہے۔ [3]پھر ان کے پاس شیطان آئے اور انھیں ان کے دین سے ہٹا دیا۔ اور جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں وہ ان کے لیے حرام کر دیں۔ اور شیطانوں نے ان کو میرے ساتھ شرک کرنے کا حکم دیا کہ جس کی میں نے کوئی دلیل نہیں اُتاری تھی…‘‘
عصرِ حاضر کے گمراہ کن فتنے اور افکار و نظریات:
اس میں کوئی شک ، شبہ نہیں کہ شرک سب سے شنیع ظلم ہے۔[4] اور ہو بھی کیوں
[1] رواہ مسلم فی کتاب الجنۃ ونعیمھا؍ حدیث ۔۷۲۰۷؍۲۸۶۵
[2] یعنی جو شریعت مطہرہ کی رو سے حرام نہیں وہ حلال ہے ۔ گو لوگوں نے اس کو حرام کر رکھا ہو ۔ جیسے سائبہ ، وصیلہ ، بحیرہ اور حام وغیرہ ، جنھیں مشرکین نے حرام کر رکھا تھا ۔
[3] یا گناہوں سے پاک ، فطرت سلیمہ پر پیدا فرمایا ۔ یا استقامت اور ہدایت کی قابلیت پر ۔ بعض علماء کا کہنا ہے کہ : مراد وہ عہد ہے جو دنیا میں آنے سے پیشتر اللہ عزوجل نے اپنے بندوں سے لیا تھا : ﴿أَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ؟ قَالُوْا: بَلٰی…﴾ (الاعراف:۱۷۲) کیا میں تمھارا رب نہیں ہوں ؟ ان سب ذرّیتِ آدم نے کہا: بے شک تو ہی ہمارا رب ہے اور ہم اس بات کے گواہ ہیں ۔ ‘‘
[4] ظلم کا لفظی معنی ہوتا ہے : ((وَضْعُ الشَّیئِ فِيْ غَیْرِ مَحَلِّہٖ )) کسی چیز کا غلط جگہ استعمال کرنا ۔ تو اللہ عزوجل کے ساتھ شرک اس لیے ظلم عظیم ہے کہ آدمی عبادات کی تمام اقسام کو اللہ تبارک و تعالیٰ کی جناب میں پیش کرنے کی بجائے کسی اور کے سامنے پیش کرے۔ اسی طرح …القاموس الوحید ص ۱۰۳۳ کے مطابق اس لفظ کے باقی معانی کا بھی پورا پورا اطلاق شرک پر ہوتا ہے ۔ جیسے کہ زیادتی کرنا ۔ غلط روش اختیار کرنا ۔ ناانصافی کرنا ۔ حق تلفی کرنا ۔ بدسلوکی کرنا اور حد سے تجاوز کرنا۔