کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 41
دین حنیف کی ابتداء:
حتی کہ اس وقت جب اللہ عزوجل نے اسلام کے سورج کو حکم فرمایا کہ وہ طلوع ہو کر اپنی چمک دمک دکھائے تو رب کبریاء جل و علا نے اپنے حبیب و خلیل اور مصطفی بندے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مبعوث فرمایا، تاکہ آپ تمام بشریت کے سامنے اس بات کا اعلان فرما دیں کہ :’’ایک اللہ کے سوا کوئی الٰہ نہیں اور یہ کہ اُس کے سوا کوئی مبعودِ برحق نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسی توحید لے کر آئے کہ جو اللہ عزوجل کا اپنے بندوں پر حق ہے اور اُن کی تخلیق کا یہی سب سے بڑا مقصد ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنے محترم نبی(صلی اللہ علیہ وسلم) کے ذریعے اپنی سب مخلوق کو اس بات سے آگاہ فرما دیا کہ:
﴿وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْإِنسَ إِلَّا لِيَعْبُدُونِ﴾ (الذاریات:۵۶)
’’اور میں نے جن اور آدمی اس لیے پیدا کیے ہیں کہ وہ میری ہی عبادت کریں۔‘‘[1]
[1] اس سے معلوم ہوا کہ جن و انس کو پیدا ہی اس لیے کیا گیا ہے کہ ان کو عبادت و طاعت کا مکلف بنایا جائے۔ تاکہ فرمانبردار کو ثواب اور نافرمان کو سزا دی جائے۔ چنانچہ جو لوگ اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور پیغمبروں کی شریعت پر عمل پیرا نہیں ہوتے ، وہ ا پنی زندگی کے مقصد سے غافل ہیں ۔ اللہ تعالیٰ کی عبادت میں اصل چیز توحید کی راہ اختیار کرنا ہے۔ اسی بنا پر حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ قرآن میں جہاں بھی اللہ تعالیٰ کی عبادت کا لفظ آیا ہے اس سے مراد توحید ہے۔ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ عبادت ایک جامع لفظ ہے اور بہت وسیع مفہوم کا حامل ہے۔ یعنی ہر وہ کام جو اللہ تعالیٰ کو پسند ہو خواہ اس کا تعلق ظاہر سے ہو یا باطن سے اسے عبادت کہا جاتا ہے۔ حدیث میں ہے ’’حتی کہ انسان جو لقمہ اپنی بیوی کے منہ میں ڈالتا ہے وہ بھی موجب اجر ہے۔ (فتح البیان وغیرہ)