کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 39
معبودیت میں اس کا کوئی شریک ، ساجھی ، حصے دار نہیں۔ نہ ہی (تمام مخلوقات کی تخلیق و نگہبانی اور حق ملکیت والی) اُس کی صفتِ ربوبیت میں اس کا کوئی شریک ہے۔ اور نہ ہی اس کے اسمائِ حسنیٰ و صفاتِ عالیہ میں اس کا کوئی مشابہ ہے۔جیسا کہ اُس نے ارشاد فرمایا ہے:
﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖوَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ (الشوریٰ:۱۱)
’’اس کی مانند دنیا میں کوئی چیز نہیں اور وہ سنتا جانتا (یعنی ہر چیز پر نظر رکھے ہوئے) ہے۔‘‘ [1]
اور میں اس بات کی بھی گواہی دیتا ہوں کہ ؛ بلاشبہ محمد (بن عبداللہ بن عبدالمطلب القرشی الہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم) اللہ عزوجل کے رسول اور اس کے بندے ہیں کہ جنہیں تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا کر بھیجا گیا ہے۔ اُنہیں اللہ رب کبریاء نے سیدھی ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تھا تاکہ آپ لوگوں کو بندوں کی عبادت سے نکال کر بندوں کے رب، اللہ کریم کی عبادت پر لگا دیں۔ اور تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندوں کو ظلم و استبداد والے مذاہب و ادیان سے نکال کر اسلام کے عدل و انصاف والے دین کی طرف لے آئیں۔ اور تاکہ آپ دنیا کی (باہم کدورتوں ، معاشی نا انصافیوں اور معاشرتی و سیاسی زیادتیوں والی) تنگی سے نکال کر انہیں دنیا اور آخرت کی وسعت و فراخی کی طرف لے آئیں۔ پس میرے رب کی تمام رحمتیں اور اس کا صلوٰۃ و سلام آپ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ، آپ کی آل و ازواجِ مطہرات پر اور آپ کے تمام اصحابِ اختیار و اطہار پر۔ آمین یَا رَبَّ الْعَالَمِیْنَ، اَمَّا بَعْدُ:
[1] یعنی کوئی چیز نہ ذات میں اس جیسی ہے اور نہ صفات میں ، کیونکہ ہر چیز مخلوق ہے اور وہ خالق ۔ ظاہر ہے کہ کسی مخلوق کو اپنے خالق سے مشابہت نہیں ہو سکتی۔ اس میں لفظ ’’مِثل‘‘ پر کاف (حرف تشبیہ) یا تو زائد ہے اور مطلب یہی ہے کہ اس کی مثل کوئی چیز نہیں ہے۔ یا اس میں ’’مِثل ‘‘ کا لفظ مبالغہ کے لیے استعمال کیا گیا ہے اور مقصد یہ ہے کہ اگر اللہ تعالیٰ کا کوئی مثل ہوتا تب بھی اس جیسی کوئی چیز نہ ہوتی کجا کہ وہ خود اللہ تعالیٰ جیسی ہو۔(شوکانی)