کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 338
رَجِلِكَ وَشَارِكْهُمْ فِي الْأَمْوَالِ وَالْأَوْلَادِ وَعِدْهُمْ ۚ وَمَا يَعِدُهُمُ الشَّيْطَانُ إِلَّا غُرُورًا ﴿٦٤﴾ إِنَّ عِبَادِي لَيْسَ لَكَ عَلَيْهِمْ سُلْطَانٌ ۚ وَكَفَىٰ بِرَبِّكَ وَكِيلًا﴾ (بنی اسرائیل:۶۳تا۶۵)
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا:(اے شیطان لعین!) چل دور ہو۔ جو شخص ان میں سے تیری پیروی کر ے گا (تو اے شیطان تیری اور ان کی) تم سب کی سزا جہنم ہے، پوری سزا۔ اور ان میں سے جس کو تو اپنی آواز سے پھسلا سکے پھسلا (یا جس کو تو اپنی آواز سے گھبرا سکے گھبرا دے) اور ان پر اپنے (لشکر کے) سوار اور پیادے چڑھالا (ہر طرح سے ان کو بہکا) اور مال اور اولاد میں ان کا ساجھی (شریک) بن جا۔ اور ان سے جھوٹے جھوٹے وعدے کر۔ اور شیطان ان سے جو وعدہ کرتا ہے اس میں دغا ہی دغا ہے۔ بلاشبہ جو میرے (خاص) بندے ہیں ان پر تیرا کچھ زور نہ چلے گا اور (ا ے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) تیرا رب کافی ہے کام بنانے والا۔ ‘‘[1]
مگر اللہ کریم اپنے بندوں میں سے جن کو چاہتے ہیں شیطانوں کی چالوں اور ان کی سازشوں سے محفوظ رکھتے ہیں۔ چنانچہ فرمایا:
﴿إِنَّهُ لَيْسَ لَهُ سُلْطَانٌ عَلَى الَّذِينَ آمَنُوا وَعَلَىٰ رَبِّهِمْ يَتَوَكَّلُونَ ﴿٩٩﴾
[1] آواز کے ساتھ شیطان کا لوگوں کو نافرمانی کی طرف دعوت دینے کے متعلق بعض علمائے سلف نے اس سے مراد گانا بجانا بھی لیا ہے۔ مال میں شیطان کی شرکت یہ ہے کہ حرام کاموں میں صرف کیا جائے ، اور بتوں یا پیروں ، بزرگوں کی نیاز دی جائے۔ اور اولاد میں شرکت یہ ہے کہ اسے گمراہی اور بد اخلاقی کی تعلیم دی جائے یا سمجھا جائے کہ فلاں نے بخشا ہے۔ مشرکین عرب اپنی اولاد کے نام عبدالعزیٰ وعبد الشمس وغیرہ رکھتے تھے۔ اور ہمارے زمانہ میں رسول بخش، حسین بخش، پیر بخش، غلام جیلانی، وغیرہ مشرکانہ نام رکھے جاتے ہیں ۔
یعنی میرے بندوں کا کچھ نہیں بگاڑ سکے گا۔ گمراہ صرف وہی ہوں گے جن کا ایمان کچا اور کمزور ہو گا۔