کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 266
اور جیسا کہ امام لالکائی اور ابن بطہ رحمہما اللہ نے اپنی اپنی کتب میں درج کیا ہے، مذکورہ بالا آئمہ کرام کا یہ قول نہایت مشہور و معروف ہے۔ اللہ عزوجل نے مومنین کی صفت کا اطلاق قرآنِ عظیم میں درحقیقت ان لوگوں پر کیا ہے جو :(۱)… ایمان لائے ، اور (۲)… دین حنیف کے اُصول اور اس کی فروعات پر جب ایمان لاتے ہیں تو اُن پر وہ پورا پورا عمل بھی کرتے ہیں۔ ان اُصول و فروعات کا تعلق دین حنیف کے ظاہر سے ہو یا اُس کے باطن سے۔ اور اس ایمان کے آثار ان لوگوں کے عقائد، ان کے اقوال اور ان کے ظاہری و باطنی اعمال کی صورت میں ظاہر ہوتے ہیں۔ چنانچہ اللہ عزوجل کا ارشاد گرامی قدرہے: ’’ایماندار تو وہی لوگ ہیں کہ جب اللہ تعالیٰ کا نام لیاجاتا ہے تو ان کے دل دہل جاتے ہیں اور جب ان کو اس کی آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان کو اور بڑھا دیتی ہیں اور وہ (ہر حال میں) اپنے رب پر بھروسا کرتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز کو درستی سے ادا کرتے ہیں اور ہم نے جوا ان کو دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔ یہی لوگ پکے ایمان والے مسلمان ہیں۔ ان کے لیے (رحمت اور فضل کے یا جنت کے) درجے ہیں ان کے رب کے پاس اور (گناہوں کی) بخشش اور عزت کی روزی ہے۔‘‘ [1] (الانفال:۲ تا ۴۔ آیات کا متن پیچھے گزر چکا ہے۔) اللہ عزوجل نے قرآنِ کریم کی بہت ساری آیات میں ایمان کو عمل کے ساتھ ملا کر بیان فرمایا ہے۔ چنانچہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا ارشادِ گرامی ہے :
[1] اوپر بیان فرمایا کہ ایمان اطاعت کو مستلزم ہے ۔ اب اس آیت میں اُمورِ طاعت کی تفصیل فرما دی۔ ’’توکل‘‘ کا مفہوم یہ ہے کہ ظاہری اسباب اختیار کر نے کے ساتھ ساتھ اصل اعتماد اور بھروسا اللہ تعالیٰ پر کیا جائے۔ یہی ایمان کا صحیح تقاضا بھی ہے ۔ اس توکل کے باعث جیسے جیسے اللہ تعالیٰ کی طرف سے نصرت نازل ہو گی اس کے ساتھ تمہارا ایمان بھی بڑھے گا۔ معلوم ہوا کہ ایمان میں کمی بیشی ہوتی ہے۔ اجزاء ایمان کے اعتبار سے بھی جیسا کہ حدیث شعب الایمان میں ہے۔ اسی طرح دلائل کی کثرت اور قوت سے بھی۔ جیسا کہ حدیث میں ہے: لَوْ وُزِنَ اِیْمانُ اَبِیْ بَکْرٍ بِاَھْلِ الْاَرضِ لَرَجَعَ… کہ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا ایمان (انبیاء کرام کے درجہ ٔ ایمان کے بعد ) تمام اہل زمین کے ایمان سے بھاری ہے۔ اہل حدیث کا یہی مسلک ہے۔ (کذا فی ابن کثیر و تفسیر کبیر)