کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 263
تبارک وتعالیٰ کے درج ذیل فرمان کے ذریعے بحث و مباحثہ کرتے ہوئے ان سے اس سلسلہ میں گفتگو کرتے ہیں۔ فرمایا: ﴿أَيْنَمَا تَكُونُوا يُدْرِككُّمُ الْمَوْتُ وَلَوْ كُنتُمْ فِي بُرُوجٍ مُّشَيَّدَةٍ وَإِن تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَـٰذِهِ مِنْ عِندِ اللّٰهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَـٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللّٰهِ ۖ فَمَالِ هَـٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا﴾ (النساء:۷۸) ’’تم جہاں رہو موت تم کو پکڑے گی (یعنی موت کے نیچے میں ضرور گرفتار رہو گے) گو کیسے ہی مضبوط قلعوں میں رہو۔ اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم) اگر ان کو (یعنی منافقوں اور یہودکو) کوئی بھلائی پہنچتی ہے تو کہتے ہیں یہ اللہ کی طرف سے ہے۔ (یہاں تک تو سچ کہتے ہیں) اور اگر کوئی برائی (بلا) آتی ہے (مثلاً قحط و گرانی مال یا جان کا نقصان) تو کہنے لگتے ہیں :یہ تیری وجہ سے ہے۔ (اے پیغمبر) کہہ دے :سب اللہ رب کبریاء کی طرف سے ہے۔ان لوگوں کو کیا ہو گیا ہے کہ بات سمجھنے کے پاس بھی نہیں پھٹکتے (قریب بھی نہیں آتے۔)‘‘[1] یہی وہ اُمور ہیں کہ جن کے ساتھ مذکور بالا طریقے کے مطابق صحابہ کرام رضی اللہ عنہم و تابعین عظام رحمہم اللہ جمیعاًوالے سلف صالحین ایمان جازم و یقین کامل رکھا کرتے تھے اور پھر ان کے بعد وہ اسلاف اخیار و ابرار بھی کہ جنہوں نے احسان وصلاح اور عمل صالح کے ساتھ سلف صالحین کی اتباع کی۔ رحمہم اللہ جمیعاً۔
[1] یہ ان کے کلام کا جواب ہے کہ برائی اور بھلائی دونوں اسی کی طرف سے اور اسی کے حکم سے ہیں ۔ ہر چیز کا پیدا کرنے والا وہی ہے۔ بلا اور مصیبت کو کسی کی نحوست قرار دینا قطعی غلط ہے۔ شاہ صاحب فرماتے ہیں یہ منافقوں کا ذکر ہے کہ اگر تدبیر جنگ درست آئی ،فتح اور غنیمت ملی تو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہوئی یعنی اتفاقاً بن گئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر کے قائل نہ ہوتے تھے۔ اور اگر بگڑ گئی تو الزام رکھتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تدبیر پر۔ اللہ صاحب نے فرمایا کہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ یعنی پیغمبر کی تدبیر اللہ کا الہام ہے غلط نہیں ۔ اگر بگڑی کو بگڑا نہ بوجھو یہ اللہ تم کو سدھاتا ہے تمہاری تقصیر پر۔ اگلی آیت میں کھول کر بیان فرماد یا۔ ـ(موضح القرآن)