کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 260
گے۔ اور تیرا مالک کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔‘‘ تیسری جگہ ارشاد ہوتا ہے : ﴿إِنَّ اللّٰهَ لَا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ ۖ وَإِن تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِن لَّدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا﴾ (النساء:۴۰) ’’اللہ تعالیٰ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔بلکہ اگر کوئی نیکی ہو تو اس کو دُگنا کر دیتا ہے اور (اس کے علاوہ) اپنے پاس سے بڑا ثواب دیتا ہے۔ ‘‘ اور اللہ عزوجل سے جو وہ کرتا ہے اس کے متعلق سوال نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اس کا جو وہ چاہتا ہے۔ چنانچہ اس کا ارشاد گرامی ہے : ﴿لَا یُسْئَلُ عَمَّا یَفْعَلُ وَ ھُمْ یُسْئَلُوْنَ o﴾ (الانبیاء:۲۳) ’’وہ جو کرے اس سے کوئی پوچھ نہیں سکتا (کیا مجال کسی کی) اور ان بندوں سے (ان کے اعمال کی) پوچھ ہو گی۔‘‘ پس اللہ تعالیٰ نے انسان کو بھی پیدا فرمایا ہے اور اس کے افعال کو بھی۔ اللہ عزوجل نے انسان کو ارادہ ، قدرت (استطاعت و مقدرت) اور اختیار عطا کرکے اسے مشیت ھبہ کردی ہے۔(کہ چاہے تو سیدھی راہ اختیار کرکے اللہ کی رضا و محبت کا حق دار بن جائے اور چاہے تو غلط ، شیطان کی راہ اختیار کرکے جہنم میں جاداخل ہو۔) تاکہ انسان کے افعال اس کی طرف سے حقیقت پر مبنی ہوں نہ کہ مجازی۔ پھر اس کے ساتھ ساتھ اللہ تبارک و تعالیٰ نے اُسے عقل و شعور اور فہم جیسی ایک نعمت عظمیٰ بھی عطا کر دی تاکہ وہ اس کے ذریعے خیر و شر کے درمیان تمیز اور پر کھ کرسکے۔ علاوہ ازیں اللہ کریم ورؤف الرحیم آدمی کا محاسبہ صرف انہی اعمال پر کرے گا جو اس کے اختیار او رارادہ سے سر انجام پائیں گے۔ پس انسان مجبور نہیں کیا گیا بلکہ اس کو ارادۃً اختیار کا حق دیا گیا ہے۔ اس لیے وہ اپنے افعال و اعمال اور اپنے عقائد کا چناؤ خود کرتا ہے۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ وہ