کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 26
کو مضبوطی سے پکڑ لو اور (ایک دوسرے سے) جدا جدا نہ ہو جاؤ۔‘‘
اورپھر اللہ تبارک و تعالیٰ نے صراطِ مستقیم کا معیار و شرطِ اوّلیں بھی عقیدۂ توحید خالص کو قرار دیا ہے۔ چنانچہ فرمایا:
﴿وَمَن يَعْتَصِم بِاللّٰهِ فَقَدْ هُدِيَ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ (آل عمران:۱۰۱)
’’اور جو کوئی آدمی اللہ(کے دین حق اور شریعت مطہرہ) کو عملاً محکم پکڑ لے گا تو وہ بالتحقیق ضرور سیدھی راہ(قرآن و سنت والے صراطِ مستقیم) پر لگ گیا۔‘‘
دوسرے مقام پر قرآن و سنت والے دین حنیف کے مضبوط کڑے کو عملاً پکڑے رہنے والوں کی پہچان یوں بیان فرمائی ہے:
﴿فَمَن يَكْفُرْ بِالطَّاغُوتِ وَيُؤْمِنۘ بِاللّٰهِ فَقَدِ اسْتَمْسَكَ بِالْعُرْوَةِ الْوُثْقَىٰ لَا انفِصَامَ لَهَاۗۗوَاللّٰهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ﴾ (البقرہ:۲۵۶)
’’تو جو کوئی باطل معبود(اور شیطانی سازشوں ، کاوشوں) کا انکار کرے اور اللہ عزوجل پر ایمان لائے تو یقینا اس نے (قرآن و سنت والے صراطِ مستقیم کے) مضبوط کڑے کو عملاً تھام لیا کہ جسے کسی صورت میں بھی ٹوٹنا نہیں ہے۔ اور اللہ تعالیٰ تو سب کچھ سننے والا ، سب کچھ جاننے والا ہے۔‘‘
مگر جیسا کہ اللہ عزوجل نے یہود و نصاریٰ کے احبار و راھبین اور ان کے علماء و قائدین کی یہ خصلت بد بیان فرمائی ہے:
﴿إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللّٰهِ الْإِسْلَامُ وَمَا اخْتَلَفَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ إِلَّا مِن بَعْدِ مَا جَاءَهُمُ الْعِلْمُ بَغْيًا بَيْنَهُمْ وَمَن يَكْفُرْ بِآيَاتِ اللّٰهِ فَإِنَّ اللّٰهَ سَرِيعُ الْحِسَابِ﴾ (آل عمران:۱۹)
’’بلاشبہ اللہ عزوجل کے نزدیک (نہایت پسندیدہ اور ہر اعتبار سے مکمل ترین)