کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 258
…مگر اللہ تبارک و تعالیٰ کی کمال رحمت کی بنا پر شرکی نسبت اس کی طرف نہیں ہو سکتی۔ اس لیے کہ رب تعالیٰ نے خیر کا حکم دے رکھا ہے اور شرسے اس نے منع کر دیا ہے۔ بلاشک ’’شر‘‘ اللہ عزوجل کی حکمت اور اس کے تقاضاجات ولوازم میں سے ہوتا ہے۔ (مگر انسان اس کو اپناتا اپنے اختیار سے ہے۔) اللہ عزوجل ارشاد فرماتے ہیں : ﴿مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ﴾ (النساء:۷۹) ’’(اے بندے) جو بھلائی تجھ کو پہنچے وہ تو اللہ کی طرف سے ہے اور جو برائی تجھ کو پہنچے (وہ بھی اللہ کی طرف سے ہے لیکن) تیرے گناہوں کی شامت سے ‘‘[1] دوسرے مقام پر اسی بات کو یوں بیان فرمایا ہے : ﴿وَإِذَا أَذَقْنَا النَّاسَ رَحْمَةً فَرِحُوا بِهَا ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ إِذَا هُمْ يَقْنَطُونَ﴾ (الروم:۳۶) ’’لوگوں کا حال یہ ہے کہ ان کو جب ہم اپنی مہربانی کا مزہ چکھاتے ہیں تو (خوشی میں) مست ہو جاتے ہیں (اور اللہ کو بھول جاتے ہیں) اور اگر ان کے اعمال کی سزا میں ان پر کوئی مصیبت آتی ہے تو اسی وقت (اللہ کی رحمت سے) نا امید ہو جاتے ہیں۔ ‘‘ اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث سلفی جماعت حقہ کا ایمانِ جازم و عقیدۂ راسخہ ہے کہ :اللہ تبارک وتعالیٰ ظلم کرنے والے نقص وعیب سے یکسر پاک ہیں۔ بلکہ ربِ
[1] اس میں برائی اور بھلائی کا ایک قانون بیان فرمایا ہے کہ بھلائی تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور جو برائی پہنچتی ہے اس کا بھیجنے والا بھی گو اللہ تعالیٰ ہی ہوتا ہے مگر اس کا سبب تمہارے اپنے گناہ ہوتے ہیں ۔ (مزید تفصیل و تاکید کے لیے: سورۃ الشوریٰ کی آیت نمبر ۳۰ کا مطالعہ کیجیے) اس لیے سلف صالحین کا عام قاعدہ تھا کہ جب کوئی اجتہادی رائے پیش کرتے تو کہتے کہ اگر یہ صحیح ہے تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے اور اسی کی توفیق سے ہے اور اگر غلط ہے تو ہماری طرف سے اور شیطان کی طرف سے۔ (ابن کثیر) اوپر کی آیت میں خلق و ایجاد کے اعتبار سے حسنہ اور سیئہ دونوں کو من عندا للہ قرار دیا اور اس آیت میں باعتبار کسب و سبب کے سیئہ کو انسان کی طرف منسوب کردیا ہے۔ لہٰذا تعارض نہیں ہے۔ (کذافی الکبیر)