کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 257
بعد پھر کوئی عذر لوگوں کا اللہ کے سامنے باقی نہ رہے۔ اور اللہ تبارک و تعالیٰ زبردست حکمت والا ہے۔ ‘‘[1] تیسرے مقام پر اس طرح سے ارشاد ہے : ﴿لَا يُكَلِّفُ اللّٰهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۚ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ﴾ (البقرہ:۲۸۶) ’’اللہ کریم کسی بھی شخص پر بوجھ نہیں ڈالتا مگر اس کی طاقت کے مطابق (جتنا وہ اٹھا سکے۔) جو اس نے اچھا کام کیا تو اس کا فائدہ بھی اسی کو ہوگا اور جو براکام کیا تو اس کا وبال بھی اسی پر ہوگا۔ ‘‘
[1] یعنی انبیاء علیہم السلام کی بعثت کا مقصد تو صرف یہ ہے کہ جو لوگ ایمان لے آئیں اور اس کے مطابق اپنے آپ کو درست کر لیں ۔ انہیں جنت کی خوش خبری دیں اور جو کفر و نافرمانی پر جمے رہیں انہیں ان کے غلط رویہ کے انجام بدسے متنبہ کریں تا کہ اس طرح ان پر اتمام حجت ہو جائے اور وہ اللہ کے ہاں کوئی عذر پیش نہ کر سکیں کہ ہمارے پاس تو تیری طرف سے کوئی خوشخبری دینے یا تنبیہ کرنے والا نہیں آیا۔ اور یہ مقصد کتاب و شریعت کے نازل کرنے سے حاصل ہو جاتا ہے۔ عام اس سے کہ وہ کتاب یک بارگی دے دی جائے یا تدریجاً نازل ہو۔ بعثت کے اس مقصد اصلی پر اس سے کوئی اثر نہیں پڑتا بلکہ کتاب کے حسبِ ضرورت تدریجاً نازل کرنے سے تو یہ مقصد علیٰ وجہ الاتم حاصل ہوتا ہے۔ پھر ان کا یہ کہنا کہ موسیٰ علیہ السلام کی طرح یکبارگی لائیں گے تو مانیں گے ورنہ نہیں ، یہ محض ضد اور عناد ہے۔ (تفسیر کبیر۔ قرطبی) یعنی وحی ہر پیغمبر پر آتی رہی ، یہ کوئی نیا کام نہیں ۔ اس کلام میں اللہ تعالیٰ نے اپنا خاص علم اتارا تاکہ وہ حق کو ظاہر کردے۔ چنانچہ ظاہر ہوا کہ جس قدر ہدایت اس نبی سے ہوئی اور کسی سے نہیں ہوئی۔ (موضح) یہ آیت بھی یہود کے مذکورہ سوال کے جوا ب میں ہے کہ اگر یہود قرآن کے کتاب الٰہی ہونے کا انکار کرتے ہیں تو اس سے قرآن کی صداقت مجروح نہیں ہوتی۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ گواہی دیتا ہے کہ قرآن اللہ تعالیٰ نے اپنے علم اور حکمت بالغہ کے ساتھ نازل کیا ہے جو اس کے انتہائی کامل ہونے کی دلیل ہے۔ یہاں ’’بِعِلْمِہٖ‘‘کا لفظ بطور محاورہ استعمال ہوا ہے۔ جیسے کہا جاتا ہے فلاں نے یہ کتاب اپنے کامل علم و فضل کے ساتھ تصنیف کی ہے۔ یعنی اپنے پورے علوم سے مددلی ہے جو اس کتا ب کے نہایت عمدہ ہونے کی دلیل ہے۔ (تفسیر کبیر) یا مطلب یہ ہے کہ اس نے قرآن اپنے علم سے یعنی یہ خوب جانتے ہوئے اتارا ہے کہ دنیا بھر کے انسانوں سے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی اس چیز کے اہل تھے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ قرآن نازل کیا جاتا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ علم نفس ذات باری تعالیٰ سے الگ صفت ہے۔