کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 256
اپنے پیغمبر (انسانوں کی مکمل رہنمائی کے لیے) بھیجتا رہا ہے۔ اور اس کے ساتھ ساتھ بندے کے اپنے عمل کا مزید اضافہ بھی فرما دیااور اس عمل کو اس کے لیے اس کی کمائی بھی بنا دیا۔ (ساتھ میں اس کمائی اور محنت کے لیے بصیرت کے ساتھ ساتھ توفیق بھی دے دی۔) بلکہ انسان کو رب کریم نے صرف اُسی عمل اور محنت کا مکلف بنایا کہ جس کی وہ استطاعت رکھتا ہو۔ اس ضمن میں اللہ تبارک و تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں : ﴿وَلَا نُكَلِّفُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا ۖ وَلَدَيْنَا كِتَابٌ يَنطِقُ بِالْحَقِّ ۚ وَهُمْ لَا يُظْلَمُونَ ﴿٦٢﴾ بَلْ قُلُوبُهُمْ فِي غَمْرَةٍ مِّنْ هَـٰذَا وَلَهُمْ أَعْمَالٌ مِّن دُونِ ذَٰلِكَ هُمْ لَهَا عَامِلُونَ﴾ (المؤمنون:۶۲تا ۶۳) ’’اور ہم کسی شخص پر اس کی طاقت سے زیادہ بوجھ نہیں ڈالتے اور ہمارے پاس ایک کتاب ہے (لوح محفوظ یا ان کا نامہ اعمال) جو سچ سچ (ان کے کاموں کو جتنا انہوں نے کیا ہے) بتلاتی ہے اور ان پر ظلم نہ ہو گا مگر ان کے دل اس بات سے غافل ہیں۔ اور اس غفلت کے سوا ان کے دوسرے اور بڑے کام ہیں جو وہ کیا کرتے ہیں۔ (شرک و کفر اور طرح طرح کے گناہ۔)‘‘ ایک اور مقام پر فرمایا: ﴿رُّسُلًا مُّبَشِّرِينَ وَمُنذِرِينَ لِئَلَّا يَكُونَ لِلنَّاسِ عَلَى اللّٰهِ حُجَّةٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ۚ وَكَانَ اللّٰهُ عَزِيزًا حَكِيمًا﴾ (النساء:۱۶۵) ’’ہم نے یہ سب پیغمبر جو خوش خبری سنانے والے تھے، (نیک لوگوں کو جنت کی) اور ڈرانیوالے تھے (بدکاروں کو) اس لیے بھیجے تاکہ پیغمبروں کے آجانے کے