کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 255
جس شخص کو اللہ تعالیٰ (اس آدمی کی اپنی ہٹ دھرمی ، سرکشی ، جہالت ، ضدمحض اور اندھی تقلید کی وجہ سے) گمراہ کردے (اس لیے کہ وہ خود بھی یہی چاہتا ہے۔) تو اس کے لیے اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے خلاف نہ کوئی حجت اور دلیل ہے اور نہ ہی اس کے اپنے پاس کوئی (اپنی گمراہی کا) عذر ہے۔[1] اس لیے کہ بلاشبہ اللہ عزوجل تو قطع حجت کے لیے لگاتار
[1] جیسے کہ کفار و مشرکین بہانے بناتے ہوئے تقدیر پر الزام دھرتے ہیں : ’’عن قریب مشرک یہ کہیں گے اگر اللہ چاہتا تو نہ ہم نہ ہمارے باپ دادا کوئی شرک کرتے اور نہ کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرتے۔ (تو جیسے ان لوگوں نے تجھ کو جھٹلایا) اسی طرح جو لوگ ان سے پہلے گزرے انہوں نے بھی (اپنے اپنے پیغمبروں کو)جھٹلایا تھا۔ بالآخر انہوں نے ہمارے عذاب کا مزہ چکھ لیا۔ (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم )کہہ دے تمہارے پاس کوئی دلیل بھی ہے (اس کی کہ اللہ تعالیٰ ان کاموں سے راضی ہے۔ اگر ہے )تو ہمارے (دکھانے کے) لیے اس کو نکالو(پیش کرو) کچھ نہیں تم تو نر ے گمان پر چلتے ہو اورنری اٹکلیں دوڑاتے ہو۔ ‘‘ (الانعام: ۱۴۸۔ آیت کا متن آگے اوپر آرہا ہے۔) یعنی جب وہ اپنے شرک اور مجرمانہ روش پر قائم رہنے کی دلیل نہیں پاتے تو تقدیر کا سہارا لے کر کہتے ہیں کہ ہمارے حق میں خود اللہ کی مرضی یہ ہے کہ ہم شرک کریں ۔ اور جو چیزیں ہم نے حرام ٹھہرائی ہیں انہیں حرام ٹھہرائیں ۔ کیونکہ اگر اللہ تعالیٰ کی مرضی نہ ہوتی تو ہم سے ان اعمال کاصدور ممکن نہ تھا۔ ہم جو کچھ کررہے ہیں اللہ کی مرضی کے مطابق کر رہے ہیں یہ سب کچھ صحیح اور حق ہے۔ مطلب یہ کہ انہوں نے اللہ تعالیٰ کی مشیت کو شرک اور محرمات کی صحت پر بطور دلیل پیش کیا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کی مشیت و ارادہ اس کی رضا اور مشروعیت کو مستلزم ہیں ۔ یہی ان کی سب سے بڑی غلطی تھی ۔ اس لیے کہ یہی تو پیغمبروں کی تکذیب کو مستلزم ہے۔ تنبیہ:… معتزلہ کے نزدیک بھی مشیت و ارادہ ، رضا اور امر کو مستلزم ہیں ۔ جبکہ اہل سنت کے نزدیک ان میں استلزام نہیں ہے۔ (روح المعانی) یعنی تم جو یہ عذر پیش کررہے ہو وہ کسی عقلی اور علمی بنیا دپر قائم نہیں ہے بلکہ محض تخمینہ اور گمان ہے۔ تم اللہ پر بہتان باندھتے ہو۔ (ابن کثیر)