کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 250
زندہ ہوں گے۔ ‘‘[1] د… ﴿إِنَّ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَاخْتِلَافِ اللَّيْلِ وَالنَّهَارِ لَآيَاتٍ لِّأُولِي الْأَلْبَابِ ﴿١٩٠﴾ الَّذِينَ يَذْكُرُونَ اللّٰهَ قِيَامًا وَقُعُودًا وَعَلَىٰ جُنُوبِهِمْ وَيَتَفَكَّرُونَ فِي خَلْقِ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ﴾ (آل عمران:۱۹۰۔۱۹۱) ’’بے شک آسمانوں اور زمین کی پیدائش اور رات دن کے آنے جانے میں (اس کی قدرت کی) نشانیاں ہیں عقلمندوں کے لیے۔ جو اللہ کو یاد کرتے ہیں کھڑے، بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے۔ اور وہ آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں غور و فکر کرتے ہیں اور (کہتے ہیں) مالک ہمارے تو نے یہ سب کارخانہ بے کار نہیں بنایا۔ تیری ذات پاک ہے (لغو اور بے کار کام کرنے سے) تو بچا ہم کو دوزخ کے عذاب سے۔ ‘‘[2] ھ…﴿وَجَعَلُوا لِلّٰهِ شُرَكَاءَ الْجِنَّ وَخَلَقَهُمْ ۖ وَخَرَقُوا لَهُ بَنِينَ وَبَنَاتٍ بِغَيْرِ
[1] یعنی ان کے وجود کو تو اللہ تعالیٰ ہی نے پیدا کیا ہے۔ گویا تراشے خراشے ان کے ہیں ۔ یا خلق بمعنی ’’ نَحْتٌ‘‘ (تراشنا) ہی ہو۔ جیسا کہ سورہ صافات (آیت ۹۵) میں ہے : اَتَعْبُدُوْنَ مَا تَنْحِتُوْن … کیا تم ان بتوں کی پوجا کرتے ہو، جن کو تم خود اپنے ہاتھ سے تراشتے ہو۔ (کذافی الروح ) یعنی ان بتوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ ان کے پوجنے والے مرنے کے بعد دوبارہ کب زندہ ہوں گے؟ اس مفہوم کے اعتبار سے ’’یَشْعُرُوْنَ‘‘میں ’’ھُمْ ‘‘ ضمیر معبودوں کے لیے اور ’’یُبْعَثُوْن‘‘ کی ضمیر ان کے پوجنے والے کافروں کے لیے ہو گی(شوکانی)۔ شاہ صاحب لکھتے ہیں : شاید ان کو فرمایا جو مرے ہوئے بزرگوں کو پوجتے ہیں (موضح القرآن)۔ اس صورت میں دونوں ضمیریں معبودوں کے لیے ہوں گی۔ معلوم ہوا کہ معبود کے لیے یومِ بعث کا جاننا ضروری ہے۔ (کذافی الروح) [2] یعنی زمین و آسمان کو پیدا کرنے میں اللہ تعالیٰ نے جو حکمت رکھی ہے وہ اس پر غور و فکر کرتے ہیں ۔ جناب حسن بصری رحمہ اللہ فرماتے ہیں : ایک ساعت کا غور و فکر رات بھر کے قیام سے بہترہے۔ خلیفہ راشد عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ فرماتے ہیں : زبان سے اللہ کا ذکر کرنا اچھا ہے لیکن اللہ کی نعمتوں پر غور و فکر کرنا اس سے بھی بہتر ہے۔ ‘‘ (ابن کثیر) علومِ ہیئت ، فلکیات اور ریاضی کو اگر دینی نقطہ نظر سے پڑھا جائے تو فی الجملہ عبادت میں داخل ہے۔ عبث نہیں بنایا کا مطلب ہے کہ اس عالم کی انتہا ہے دوسرے عالم میں (موضح) یعنی غور و فکر سے ان پر یہ حقیقت کھلتی ہے کہ کائنات کا یہ سارا نظام یونہی بے مقصد نہیں پیدا کیا گیا بلکہ اس کے پیچھے یہ مقصد کارفرما ہے کہ انسان دنیا میں اللہ تعالیٰ کے احکام کے مطابق زندگی بسر کرے تو اجروثواب پائے اور اگر نافرمانی کرے گا تو آخرت میں عذاب کی سزا بھگتے گا اس لیے وہ آگ سے محفوظ کئے جانے کی دعا کرتے رہتے ہیں ۔