کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 248
چوتھا رکن …عمل تخلیق
اس کا معنی یہ ہے کہ :اللہ عزوجل ہر چیز کا خالق ہے۔ نہ ہی اس کے سوا کسی بھی چیز کا کوئی پیدا کرنے والا ہے اور نہ ہی اس کے سوا کوئی رب ہے۔ (یعنی روزی دینے، پروردگاری کرنے والا ، نگران و نگہبان ، مالک اور معبودِ برحق۔) اور اس میں بھی کوئی شک وشبہ نہیں کہ اس کے سوا جو کچھ بھی ہے وہ سب کا سب مخلوق ہے۔ [1]
وہ اللہ خالق کائنات ہر محرک و کارندے اور عمل کرنے والے کو بھی پیدا کرنے والا ہے اور اس کے عمل و حرکت کو بھی۔ اسی طرح ہر متحرک بالارادہ و متحرک بلاارادہ کو بھی[2] پیدا کرنے والا وہی ہے اور ہر ایک متحرک کی حرکت و جنبش کو بھی۔ چنانچہ اللہ رب العالمین فرماتے ہیں :
۱…﴿الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَخَلَقَ كُلَّ شَيْءٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيرًا﴾ (الفرقان:۲)
’’وہ اللہ ذوالجلال ایسا ہے کہ جس کی آسمانوں اور زمین میں بادشاہت ہے۔ اور وہ کوئی بیٹا نہیں رکھتا (بلکہ سب اس کے بندے اور غلام ہیں) اور نہ بادشاہت میں کوئی اس کا ساجھی ہے اور اس نے ہر چیز کو بنایا۔ پھر ایک اندازے سے اس کو درست کیا۔‘‘
[1] یعنی ایسی مخلوق کہ جس کا اللہ رب العزت کی ذات اقدس سے کوئی تعلق نہیں ۔﴿لَمْ یَلِدْوَلَمْ یُوْلَدْo﴾ ’’نہ اس نے کسی کو جنا ہے (کہ کوئی اس کی ذات اقدس کا بیٹا، بیٹی یا حصہ ہو یا اس سے پیدا ہوا ہو یااس سے کچھ حصہ جدا ہوا ہو ، ایسا نظریہ قطعی طور پر شرک ہے۔) اور نہ ہی وہ کسی سے پیدا کیا گیا ہے۔ (کہ کوئی اس کا باپ ہو یا کوئی دوسرا کل ہو اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ اس کا حصہ ہو ، ایسا نظریہ وعقیدہ بھی کفر اور صراحتاً شرک ہے۔) ‘‘
[2] متحرک بالارادہ سے مراد وہ تمام جاندار اشیاء ہیں کہ جو ایک جگہ سے دوسری جگہ خود بخود منتقل ہو سکتی ہوں ۔ جیسے تمام حیوانات ، انسان اور جن وغیرہ۔ جبکہ متحرک بلاارادہ سے مراد وہ تمام جاندار اشیاء ہیں کہ جو ایک جگہ سے دوسری جگہ خود بخود آ، جانہ سکتی ہوں ۔ جیسے تمام درخت اور پودے۔