کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 236
[1]جیساکہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :
((اَلصِّیَامُ وَالْقُرْآنُ یَشْفَعَانِ لِلْعَبْدِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ))
’’روزے اور قرآن (کہ جس کی باقاعدہ تلاوت کرتا رہا ہوگا) قیامت والے دن بندے کے لیے شفاعت کریں گے۔ ‘‘[2]
[1] ( (یا اس کے جلال سے ڈرتے ہیں )۔‘‘یعنی جن کے لیے سفارش کرنے کی اللہ تعالیٰ اجازت دے ، مراد اہل توحید ہیں ۔ یہاں سفارش کرنے والوں سے فرشتے بھی مراد ہو سکتے ہیں جیسا کہ نظم قرآن کے سیاق و سباق سے معلوم ہوتا ہے اور صحیح مسلم میں اس کی تائید میں ایک حدیث بھی ہے اور انبیاء بھی جیسا کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت کی اورپھر فرمایا: (( اِنَّ شَفَاعَتِیْ لِاَھْلِ الْکَبَائِرِ مِنْ اُمَّتِیْ )) ’’کہ میں اپنی امت کے گنہگاروں کی سفارش کروں گا۔‘‘ (شوکانی)
﴿وَجَنُوْدُ اِبْلِیْسَ اَجْمَعُوْن o قَالُوْا وَھُمْ فِیْھَا یَخْتَصِمُوْنَ o تَاللّٰہِ اِنْ کُنَّالَفِیْ صَلٰلٍ مُّبِیْنٍ o اِذْنُسَوِّیْکُمْ بِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ o وَمَآ اَضَلَّنَآ اِلاَّ الْمُجْرِمُوْنَ o فَمَا لَنَا مِنْ شَافِعِیْنَ o وَلاَ صَدِیْقٍ حَمِیْمٍ o فَلَوْااَنَّ لَنَا کَرَّۃً فَنَکُوْنَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ o﴾ (الشعراء: ۹۳تا ۱۰۲) ’’اور شیطان کے لشکر سب کے سب اوندھے منہ اُس میں (یعنی دوزخ میں گرا دیے جائیں گے)۔ گمراہ کہیں گے: جب وہ اپنے معبودوں سے جھگڑ رہے ہوں گے: خدا کی قسم ہم تو (دنیا میں ) صاف گمراہی میں تھے۔ جب ہم لوگ تمہیں سارے جہانوں کے رب کے برابر سمجھتے تھے اور ہم کو تو اور کسی نے نہیں گناہ گاروں نے بہکا دیا۔ تو اب نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہے اور نہ کوئی دلسوز دوست (یاجانی دوست یا رشتہ دار دوست) تو کاش ہم کو ایک بار اور (دنیا میں )جانا ملے اور ہم بھی ایمان داروں میں شامل ہوں ۔ ‘‘
یا تمہارے لیے وہ اختیارات اور صفات تسلیم کرتے تھے جو دراصل اللہ تعالیٰ کے ساتھ خاص ہیں ۔ جیسے اشیا کی حلت و حرمت کا اختیار اور بیمار کو شفا یاب کرنا وغیرہ۔ حدیث میں ہے: ’’ یہ مت کہو کہ جو اللہ چاہے اورجو فلاں شخص چاہے بلکہ یوں کہو جو اللہ چاہے اور پھر فلاں شخص چاہے۔ ‘‘(ابو داؤد)
اب نہ کوئی ہماری سفارش کرنے والا ہے… یعنی جن جن کو ہم دنیا میں اپنا سفارشی سمجھتے تھے اور ہمارا خیال تھا کہ ان کا دامن تھام لیں گے تو ہمارا بیڑا پار ہے، آج ان میں سے کوئی نظر نہیں آتا۔
﴿وَاَنذِرْہُمْ یَوْمَ الْآزِفَۃِ اِِذْ الْقُلُوْبُ لَدَی الْحَنَاجِرِکَاظِمِیْنَ o مَا لِلظٰلِمِیْنَ مِنْ حَمِیْمٍ وَّلاَ شَفِیعٍ یُطَاعُ o﴾(المومن : ۱۸) ’’اور (اے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم ) ان لوگوں کو اُس دن (کی تکلیف) سے ڈرا جو نزدیک آلگا ہے۔ (یعنی قیامت کے دن سے) جب (مارے ڈر کے) دل گھٹ کر گلوں کے پاس آجائیں گے۔ (اس دن) نافرمانوں کا کوئی دلسوز دوست نہ ہوگا اور نہ کوئی سفارشی جس کی سفارش مانی جائے۔‘‘
یعنی اس دن جو سفارش کرنے کی اجازت دی جائے گی وہ انبیاء ، فرشتوں اور نیک بندوں کو دی جائے گی اور وہ بھی صرف اہل ایمان کے لیے ، رہے کا فر اور مشرک، سو ان کا اس روز کوئی سفارشی نہیں ہوگا۔
[2] انظر۔ ((صحیح الجامع الصغیر)) للالبانی، برقم :(۳۸۸۲)۔