کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 23
کر کھویا ہے۔ اللہ عزوجل کی طرف سے کسی ظلم کی بنا پر کہ جسے شاید اس نے ان پر روا رکھا ہو، ہر گز ان کو دنیا میں رسوا نہیں کیا گیا۔ اس لیے کہ: ﴿مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِہٖ وَمَنْ اَسَائَ فَعَلَیْہَا وَمَا رَبُّکَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِیدِo﴾ (حٰم السجدہ:۴۶) ’’جس نے نیک عمل کیا سو اپنے لیے اور جس نے برائی کی سو اسی پر ہو گی۔ اور تیرا رب اپنے بندوں پر ہر گز کوئی ظلم کرنے والا نہیں۔ ‘‘ دوسرے مقام پر فرمایا: ﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَظْلِمُ النَّاسَ شَیْئًا وَّ لٰکِنَّ النَّاسَ اَنْفُسَھُمْ یَظْلِمُوْنَo﴾ (یونس:۴۴) ’’بے شک اللہ لوگوں پر کچھ بھی ظلم نہیں کرتا مگر لیکن لوگ اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں۔‘‘ پیچھے بیان کردہ حدیث:(و) میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان اس ضمن میں کس قدر واضح ہے؟ ۴… پیچھے ذکر کردہ حدیث:(ز)میں چودہ سو پچیس سال قبل سے لے کر قیامت تک کے لیے جن پانچ ادوار کو بیان کیا گیا ہے … تو اس میں کوئی شک نہیں کہ ہم اس وقت جبر و قہر اور ظلم و جور والی بادشاہت کے زمانہ ،جمہوری دورِ استبداد سے گزر رہے ہیں ، مگر نہ ہی تو قرآن میں کہیں اللہ عزوجل کی طرف سے ایسا حکم و ارشاد موجود ہے اور نہ ہی نبی معظم محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دو ر کے حوالے سے اہل ایمان و اسلام کو ایسی کوئی ہدایات دی ہیں کہ جب یہ دور آئے تو تم یہود و نصاریٰ ، ہنود و مشرکین اور ملحدین و اعداء اللہ کی تہذیب و تمدن کو اپنا کر اپنے دین و شریعت سے ہی منہ موڑ بیٹھنا۔ بلکہ اُوپر سیّدنا معاویہ بن ابو سفیان رضی اللہ عنہما سے مروی حدیث اور اسی موضوع سے متعلق دیگر صحابہ کرام سے روایت کردہ احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت