کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 228
کچھ کام نہ آئی۔ میری دولت بھی خاک میں مل گئی۔ (حکم ہوگا) اس کو پکڑ لو (باندھ لو) گلے میں طوق ڈالو پھر دوزخ میں دھکیل دو۔ پھر ستر ہاتھ کی ایک زنجیر میں اس کو پرو دو۔‘‘[1]
…اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث سلفی جماعت حقہ کے اہل ایمان و اسلام اس پل ’’صراط‘‘ پر بھی مکمل اور پورا پورا یقین محکم و ایمان جازم رکھتے ہیں کہ جسے جہنم کے اوپر تن کر نصب کر دیا جائے گا۔ اس پل پر سے (تمام کے تمام نیک اور برے ، فاجر و فاسق اور صالح ہر طرح کے لوگ ، حتی کہ انبیاء بھی) گزریں گے۔ نیک صالح لوگ تو اس کو بآسانی پار کر جائیں گے مگر فاجر و فاسق (اور کفار و مشرکین ، مبتدعین واعداء اللہ) اس سے گر کر جہنم میں جا پہنچیں گے۔ [2]
[1] سلطان ‘‘ سے مراد دلیل و حجت اور دولت و حکومت جیسی ہر چیز ہو سکتی ہے۔ مقاتل رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ اقتدار ہے جو ہر شخص کو اپنے ہاتھ پاؤں پر ہوتا ہے۔ چنانچہ قیامت کے روز جب کافر کے ہاتھ پاؤں اس کے خلاف گواہی دینگے تو کہے گا: ’’ھَلَکَ عَنِّیْ سُلْطَانِیَہ‘‘ آج میرا اقتدار مجھ سے جاتا رہا۔ (شوکانی)
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ وہ ’’زنجیریں اس کے پیچھے سے داخل کر کے منہ سے نکالی جائیں گی۔ (ابن کثیر)
[2] یہاں ’’صراط ‘‘ سے مراد وہ پل ہے کہ جس پر چلتے ہوئے لوگ جنت کی طرف جائیں گے۔ اور اس پل سے گزرتے ہوئے لوگوں کے چلنے کی رفتار ان کے اعمال کے مطابق ہوگی۔ ان میں سے بعض ایسے خوش نصیب اور اعلیٰ بخت والے ہوں گے جو اس پر سے پلک جھپکنے میں گزر جائیں گے۔ بعض ایسے خوش نصیب ہوں گے جو اس پر سے (آسمانی) بجلی کی سی رفتار سے گزر جائیں گے۔ کچھ ایسے اہل ایمان ہوں گے جو نہایت تیز رفتار ہوا کی رفتار کے مطابق اس کے اوپر سے گزریں گے۔ بعض ایسے مسلمان ہوں گے جو بہت ہی تیز رفتار گھوڑے کی رفتار کے مطابق اس پل کے ذریعے جہنم کے اوپر سے گزریں گے۔ کچھ وہ لوگ ہوں گے جو اونٹوں پر سوار لوگوں کی طرح اس پر سے گزریں گے۔ بعض ایسے ہوں گے جو خود دوڑ کر (جس قدر وہ دوڑ سکیں گے) اس کے اوپر سے گزریں گے۔ اور کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو عام چال چلتے ہوئے اس کے اوپر سے گزریں گے۔ بعض لوگ رینگتے ہوئے آہتہ آہستہ گزر سکیں گے۔ اور بے شمار ایسے ہوں گے جنہیں جہنم کے فرشتے جھپٹا مار کر جہنم میں پھینک دیں گے۔ (اَللّٰھُمَّ اِنَّا نَعُوذُبِکَ مِنَ النَّارِ ، فَقِنَا عَذَابَ جَہَنَّمَ وَقِنَاعَذَابَ النَّارِ)غرضیکہ ہر شخص اس کے اوپر سے اپنے اپنے عمل کے حساب سے گزرے گا۔ حتی کہ مومن خطا کار اپنے گناہوں سے (جہنم میں داخل ہو کر) پاک ہو جائے۔ اور جو شخص اس پل ’’صراط‘‘ سے بآسانی پار ہو گیا اس کا جنت میں داخلہ جانیے کہ آسان ہو گیا۔ لوگ جب جہنم کے اوپر بنائی گئی پل کو عبور کر لیں گے تو وہ جہنم اور جنت کے درمیان کمان نما ڈاٹ کے ایک پل پر جا کھڑے ہوں گے ، پھر ان میں سے بعض کو دوسروں سے ان کا بدلہ وقصاص دلوایا جائے گا۔ اور جب وہ (باہمی کدورتوں وغیرہ سے) بالکل پاک کرکے خالص اور آلائشوں سے پاک کر دیے جائیں گے تب انھیں جنت میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔ ‘‘