کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 211
معلوم نہیں کل وہ کیا کرے گا (اچھے کام یا برے کام) اور کوئی نہیں جانتا (اللہ کے سوا کہ) وہ کس ملک (کس سرزمین) میں مرے گا بے شک (یہ باتیں) اللہ ہی جانتا ہے اسی کو خبر ہے۔ ‘‘[1]
…اس میں کوئی شک نہیں کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے بندوں سے قیامت کے وقوع پذیر ہونے والے وقت کو مخفی رکھا ہے مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس نے قیامت کے دن کی علامات اور اس کی نشانیاں (قرآن میں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث میں) بتلا دی ہیں اور ایسی نشانیاں رکھی ہیں کہ جو قرب قیامت پر دلالت کرتی ہیں۔
یہ اہل السنۃ والجماعۃ اہل الحدیث سلفی جماعۃ حَقہ کے اہل ایمان قیامت سے متعلق ہر چھوٹی ، بڑی علامت پر پورا پورا ایمان کا مل و یقین محکم رکھتے ہیں کہ جو علامات قیامت کے قائم ہونے کے لیے اس کی نشانیوں کے طور پر ظاہر ہوتی ہیں۔ اس لیے کہ یہ علامات بھی یوم آخر ت پر ایمان میں شامل اور داخل ہیں۔ (یعنی ان پر ایمان کے بغیر قیامت کے دن پر ایمان مکمل نہیں ہوتا۔)
[1] اوپر قیامت کے دن سے ڈرایا ہے۔ اب یہاں فرمایا کہ اس کے وقوع کا علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہے۔ (تفسیر کبیر) بخاری و مسلم اور مسند احمد کی متعدد روایات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باتوں کو ’’غیب کی کنجیاں ‘‘ قرار دے کر ان کے متعلق فرمایا ہے کہ انہیں اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ خود نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان باتوں کا یا ان میں سے کسی بات کا علم تھا سراسر باطل ہے۔ اور قیامت کے متعلق تو حضرت جبرئیل علیہ السلام والی روایت میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے جواب میں فرمایا: ((مَا الْمَسْؤلُ عَنْھَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ)) یعنی جس سے سوال کیا جا رہا ہے اس کو سائل سے زیادہ علم نہیں ہے۔ ام المومنین سیّدہ عائشہ فرماتی ہیں : ((مَنْ رَعَمَ انَّہٗ (صلي الله عليه وسلم ) یَعْلَمُ مَایَکُوْنُِ فِی غدٍ فَقَدْ اَعْظَمَ عَلَی اللّٰہِ الْفِرْیَۃَ)) ’’جس نے دعویٰ کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جانتے ہیں کہ کل کیا ہونے والا ہے اس نے اللہ پر بہت بڑا بہتان باندھا۔ (شوکانی ، ج ۴ ، ص ۱۴۳)