کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 21
صحیح احادیث کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے جس سے یہ نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ :
۱… چودہ صدیاں قبل کے اہل ایمان و اسلام تھوڑے ہونے کے باوجود صرف چالیس سالوں میں پوری دنیا کے مالک بن گئے اور جب سے دنیا قائم ہوئی ہے تب سے لے کر آج تک اور تاقیامت سب ملتوں سے افضل ترین اُمت قرار پائے تھے۔اُنہیں ’’خیر الناس اور خیر القرون‘‘ کا لقب سیّدنا الانبیاء والرسل محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس و مبارک زبان سے عطا ہوا تھا۔ جیسا کہ آپ نے پیچھے ذکر کردہ حدیث (ب) اور حدیث (ھ) میں پڑھ لیا ہے۔ اس پر مستزاد اللہ عزوجل کا یہ ارشادِ گرامی بھی پڑھ لیجیے۔ فرمایا:
﴿وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ﴾ (التوبہ:۱۰۰)
’’اور مہاجرین وانصار میں سے سبقت کرنے والے سب سے پہلے لوگ اور وہ لوگ جو نیکی کے ساتھ ان کے پیچھے آئے، اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اس سے راضی ہوگئے اور اس نے ان کے لیے ایسے باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں ، ان میں وہ ہمیشہ رہنے والے ہیں ہمیشہ تک کے لیے۔ یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘
۲… عصر حاضر میں مسلمانوں کی تعداد لاکھوں میں نہیں ، بلکہ کروڑوں میں ہے۔ پچاس سے زیادہ ان کے اپنے ملک ہیں اور ساری دنیا کی تمام ملتوں اور قوموں کی نسبت مال و دولت کے اعتبار سے بھی بہت مال دار۔ مگر ہر جگہ، ہر ملک وخطہ اور ہر مقام پر ذلت و رسوائی کی زندگی گزارنے پر مجبور و بے بس ہیں۔ اُن اقوام کے سامنے غلاموں جیسی زندگی گزارتے ہیں جن کے آباؤ و اجداد کل ہمارے آباؤ و اجداد سے اپنی زندگیوں کی بھیک مانگا کرتے تھے۔ اس کا ایک تو سبب وہی ہے جو اُوپر حدیث نمبر