کتاب: عقیدہ ایمان اور منہج اسلام - صفحہ 205
کا تھا۔ یہ واقعہ نبی معظم صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت و رسالت کے لیے ایک بہت بڑی دلیل اور اللہ عزوجل کی طرف سے آپ کو عطا کی جانے والی ایک نہایت ہی بڑی نشانی تھی۔ یہ واقعہ مکی زندگی میں اس وقت پیش آیا تھا جب مشرکین مکہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی نبوت کے ثبوت میں ایک نشانی کا مطالبہ کیا تھا۔ قرآن نے اسے یوں بیان کیا ہے : ﴿اقْتَرَبَتِ السَّاعَةُ وَانشَقَّ الْقَمَرُ ﴿١﴾ وَإِن يَرَوْا آيَةً يُعْرِضُوا وَيَقُولُوا سِحْرٌ مُّسْتَمِرٌّ ﴿٢﴾ وَكَذَّبُوا وَاتَّبَعُوا أَهْوَاءَهُمْ ۚ وَكُلُّ أَمْرٍ مُّسْتَقِرٌّ﴾ (القمر:۱ تا ۳) ’’قیامت قریب آن پہونچی اور چاند پھٹ گیا اور یہ (قریش کے) کافر اگر کوئی نشانی دیکھتے ہیں تو ٹال دیتے ہیں۔ (اس کا کچھ خیال نہیں کرتے) اور کہتے ہیں یہ جادو تو (ہمیشہ سے) چلا آیا ہے۔ اور انہوں نے (پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو) جھٹلایا اور اپنے (دل کی) خواہش پر چلے اور ہر کام کا آخر ایک ٹھیراؤ ہے۔ (وہاں جا کر دم لے گا)۔‘‘ [1]
[1] متواتر صحیح احادیث سے ثابت ہے اور تمام علماء کا اس پر اتفاق ہے کہ چاند کے پھٹنے کا یہ واقعہ بطور معجزہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں واقع ہو چکا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ چاند کے پھٹ جانے پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اِشْھَدُوْا ’’گواہ رہو۔‘‘ (ابن کثیر) بعض لوگ اِنْشَقَّ الْقَمَر کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ قیامت کے قریب چاند پھٹے گا۔ لیکن یہ مطلب بجائے خود مہمل ہے اور اس سے متواتر احادیث کی مخالفت لازم آتی ہے۔ اور پھر کسی عقلی دلیل سے بھی اس واقعہ سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔ باقی رہا یہ کہنا کہ چاند پھٹا ہوتا تو تاریخوں میں ذکر ہوتا۔ تو واضح رہے کہ اول تو یہ ہے بھی رات کا تھوڑی دیر کا واقعہ، اس لیے دنیا بھر کے تمام لوگوں کا مطلع ہونا ضروری نہیں اور بعض ملکوں میں اس وقت دن ہوگا اور بعض میں مطلع کے اعتبار سے چاند کا طلوع بھی نہیں ہوگا۔ تاہم تاریخ فرشتہ وغیرہ میں مذکورہے کہ ہندوستان میں مہاراجہ ’’مالی بار‘‘ نے چاند کو دوٹکڑوں کی شکل میں دیکھا اور اس وجہ سے وہ اسلام بھی لے آیا۔ ’’بینات‘‘ میں اس پر تفصیلی بحث ہے۔ احادیث میں مذکور ہے کہ یہ بات کفار مکہ نے شق قمر کا معجزہ دیکھ کر کہی تھی۔ اس سے صاف معلوم ہوا کہ یہ معجزہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہو چکا ہے اور قرب قیامت میں چاند کے پھٹنے کی تاویل سیاق و سباق کے بھی خلاف ہے۔ اس میں اس طرف اشارہ ہے کہ ایک وقت آئے گا جب ہر چیز کی حقیقت کھل کر سامنے آ جائے گی چنانچہ ان کافروں کو بھی پتہ چل جائے گا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے سچے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھے اور ان کی تکذیب غلط تھی۔